بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت خوشی محمد،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر
برائیوں اور گناہوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے
معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک بہتان و تہمت یعنی
جھوٹا الزام لگانا بھی ہے،بہتان سے بچنے کے لیے آئیے اس کی تعریف کو سمجھ لیتے
ہیں:
بہتان کی تعریف:کسی
مسلمان مرد یا مسلمان عورت کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اس میں موجود نہ ہو بہتان
کہلاتا ہے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہوگا) میں رکھے گا جب
تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔(ابو داود،3/427،حدیث: 3597)
2۔ پیارے آقا ﷺ نے صحابۂ کرام سے استفسار
فرمایا:کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام نے عرض کی ہم میں مفلس وہ ہے جس
کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ارشاد فرمایا:میری امت میں مفلس وہ ہے جو
قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی
ہوگی،فلاں پر تہمت لگائی ہوگی،فلاں کا مال کھایا ہوگا،فلاں کا خون بہایا ہوگا،فلاں
کو مارا ہوگا،پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا اگر اس کے
ذمے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ
اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم، ص 1029، حدیث: 2581)
3۔جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا
فسق اورکفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔(سنن ابی داود،حدیث:3597)
4۔جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو
اللہ اس (الزام لگانے والے،تہمت لگانے والے،جھوٹی بات منسوب کرنے والے) کو دوزخ کی
پیپ میں ڈالے گایہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے۔(مشکاۃ
المصابیح،3/436،حدیث: 3542)
5۔ پاک دامن عورت پر تہمت (بہتان) لگانا سو برس کے عمل کو تباہ کرتا ہے۔(مجمع
الزوائد،6/279)
بہتان سے بچنے کا درس:کسی پر بہتان لگانا شرعا انتہائی سخت
گناہ اور حرام ہے،اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت و بہتان سے توبہ کر
لیجیے۔بہار شریعت حصہ 16 ص 538 پر ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور جس پر بہتان لگایا ہے اسے معلوم ہونے کی صورت میں معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان
باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر
میں نے بہتان باندھا تھا،نفس کے لیے یقینا یہ سخت گراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سے
ذلت اٹھانی آسان جبکہ آخرت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے،خدا کی قسم دوزخ کا عذاب
برداشت نہیں ہو سکے گا۔
بہتان کی چند مثالیں:ہمارے معاشرے میں بہتان کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اس کی مثالیں بھی عام
طور پر مل جاتی ہیں،کسی بے گناہ کے سر اس لیے بہتان لگانا کہ اس کی تذلیل و بدنامی
ہو،کسی شخص کو دوسروں کی نظروں میں گرانے کے لیے اس پر بہتان لگایا جاتا ہے تاکہ
لوگ اس سے نفرت کریں اور اسے برا سمجھیں،دوسروں پر مذاق مذاق میں تہمت لگانا اس سے
بہت دل آزاری بھی ہوتی ہے اور بعد میں کہنا سوری میں تو مذاق کر رہا تھا،اس طرح
اور بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
چند معاشرتی نقصانات:بہتان کی ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ کثرت ہے،اس کی ایک بڑی وجہ لا علمی اور
کم علمی ہے،اسلامی معاشرے میں فواحش کو رواج دینے کی بجائے حسن ظن قائم رکھنا
چاہیے،مگر افسوس کہ طلاق و خلع کے مقدمات میں مرد و عورت کا اپنے دفاع میں ایک
دوسرے پر بد کردار ہونے کی تہمت لگانا معمول بن گیا ہے۔صد افسوس ہمارے وکلا حضرات
بھی کیس جیتنے کے لیے جھوٹ اور بہتان طرازی جیسے برے عمل کو مزید تقویت دے کر
سنگین گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں،کسی پر بہتان لگا کر اس کا بسا ہوا گھر اجاڑ دیا
جاتا ہے۔اللہ پاک ستار العیوب یعنی عیبوں پر پردے ڈالنے والا ہے ہمیں بھی چاہیے کہ
ہم بھی دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالیں نہ کہ ان کی تشہیر میں جھوٹ کی انتہائی یعنی
تہمت طرازی پر اتر آئیں یہ ہمارے اخلاق کے انتہائی پست ہونے کی دلیل ہے،ہمارے
معاشرے میں تہمت جیسا صریح گناہ اب گناہ نہیں بلکہ معمول کی حیثیت اختیار کر چکا
ہے،جبکہ اللہ پاک نے قرآن کریم کی سورۃ النساء میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ
بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو اور جو خائن لوگ ہیں ان کی حمایت نہ
کرو اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔
اللہ ہم سب کو بہتان سے بچنے اور حسن ظن قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الامین ﷺ