بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت مشتاق احمد عطاریہ،جامعۃ المدینہ کنیز فاطمہ کوٹ ادو
کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر
گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے معاشرے
میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تہمت وبہتان یعنی جھوٹا
الزام لگانا ہے،چوری،رشوت،قتل جیسے جھوٹے الزامات نے ہماری گھریلو،کاروباری،دفتری
زندگی کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔بہتان تراشی
حرام گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہوگا) میں رکھے گا جب تک وہ اپنی کہی
ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابوداود، 3/427،حدیث: 3597)
2۔جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ پاک
جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک وہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب
پالے۔(ابوداود،4/354،حدیث: 4883)
3۔جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کر
دے گا۔(ابن ماجہ 3/3،حدیث: 2373)
بہتان سے بچنے کا درس:اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت و بہتان سے توبہ کر لیجیے، بہار شریعت
حصہ 16 صفحہ 538 پر ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور جس پر بہتان لگایا ہے اسے
معلوم ہونے کی صورت میں معافی مانگنا ضروری ہے،بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے
ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان
باندھا تھا۔نفس کے لیے یقینا یہ سخت گراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سے ذلت اٹھانی
آسان جبکہ آخرت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے،خدا کی قسم دوزخ کا عذاب برداشت نہیں
ہو سکے گا۔
مثال:اس کو اس مثال سے
سمجھیے کہ پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں
کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا۔
اللہ پاک ہمیں بہتان جیسے کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو
اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت و رضا و خوشنودی والے کاموں میں استعمال کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ