ہر اہل فکر و
دانش اور علم و حکمت کا متلاشی یہ حقیقت تسلیم کرتا ہے کہ نہیں ہے کوئی رفیق کتا ب
سے بہتر ۔ اور تاریخ اس سچ کی گواہی دیتی ہے کہ وہ اقوام اپنے علم و فن کی بناء پرترقی
کی منازل طے کرتی ہیں اور فاتح اقوام کی صف میں شمار ہوتی ہیں۔جن کا ہتھیار قلم اور
اوڑھنا بچھونا کتاب ہوتی ہے اور ساتھ اس کاادب، لیکن اس کے برعکس جو اقوام کتابوں
کا ادب نہیں کرتیں اور کتاب سے اپنا رشتہ
توڑ لیتی ہیں وہ نہ تو معراج انسانی کے کمال کو پاسکتی ہیں اور نہ ہی ترقی اورفکر
وفن کی منزل طے کرپاتی ہیں، کتاب کے ادب کی اہمیت کے پیش نظر مشہو ر فرانسیسی مفکر
و الٹر کہتا ہے کہ
تاریخ میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کر
کتابوں کا ادب کرنے والوں نے ہی لوگوں پر
حکومت کی ہے۔
آج بھی مغربی
سماج کی ترقی میں اہم کردار ادب کتب کا ہے کتاب کا ادب بہت سے لوگوں کی زندگی میں
روشن قندیل کا کام کرتی ہے، لیکن آج ہمارے طالبِ علموں نے کتابوں کے ادب کو چھوڑ دیاہے۔
یہ حقیقت ہے
کہ جب تک مسلمانوں میں کتاب دوستی اور ان کا ادب رہا وہ دنیا پر حکمران رہے لیکن
جیسے جیسے انہوں نے کتابوں کے ادب کو چھوڑا تو محکومی وزوال ان کا مقدررہا۔
ہوئی
ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خودی
سے جب دین و ادب ہوئے بیگانہ
آج ہمارے علما
کرام بھی کہتے ہیں کہ ’’باادب بانصیب بے ادب بے نصیب‘‘ یہ کتاب ہی ہے جس کا دب
کرنے سے ہم ادب و احترام سیکھتے ہیں لیکن جب اس کتاب کی ہم بے حرمتی شروع کردیں
اور ان سے لاتعلقی اختیار کرلیں تو پھر ہمارے لیے علم وتحقیق کی محزن تک رسائی حاصل کرنا ناممکن ہے، اپنا اسلاف کے محزن
فکرو فن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کتاب سے عشق اور احترام ہم پر لازم ہے۔
گرخواہش
ہے رمز تحقیق و علم کی
غزالی
کے محزن فکر و فن کی
پھر
لازم ہے تم پر احترامِ کتاب
پھر
لازم ہےتم پر احترام ِ کتاب
اللہ رب العزت
ہمیں احترامِ کتاب اور کتاب سے دوستی کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم صحیح معنوں میں
علم کی شمع سے استفادہ کرسکیں ۔ آمین
نوٹ۔۔کتاب دینی ہو یا دنیاوی ادب دونوں کا ضروری ہے۔