ادب:
عزت، تکریم، احترام۔
ادب
عربی زبان کا لفظ ہے، لفظ ادب دو معنوں میں
استعمال ہوتا ہے، ایک معنی ہیں"ادب"
وہ ہے جس میں انسانی زندگی کا اور اس سے وابستہ ہر شے کا مطالعہ کیا جاتا ہے، دوسرے معنوں میں "ادب" سے مراد دوسروں
کی عزت، تکریم اور احترام کرنا ہے، یعنی"respect"کہتے ہیں، باادب
بانصیب۔
اب
جہاں دوسروں کی عزت کرنے کی بات آتی ہے، اس میں بہت سی صورتیں آتی ہیں کہ ادب کس کا کیا
جائے؟ اب جس طرح ہم سے ہمارے بڑے اساتذہ اور والدین وابستہ ہوتے ہیں اور ان کا ادب
ہمارے لئے ضروری ہوتا ہے، وہیں ان سب کے
علاوہ ہمارے موضوع کے مطابق ہم سے ہماری کتابیں(books) بھی وابستہ ہوتی ہیں کہ ان کا ادب بھی ہمارے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔
اب اگر ہم کتابوں کے ادب کی بات کریں، تو ہم میں سے ہر کوئی اپنے ذہن کے مطابق کچھ نہ
کچھ جانتا تو ہے کتابوں کے ادب کے بارے میں،
لیکن اگر کسی سے ادب کا حقیقی معنی پوچھ لیا
جائے تو ہماری حالت کیا ہوتی ہے کہ" بارہا میں نے سنا تو ہے یا میں جانتا تو
ہوں کتابوں کے ادب کے بارے میں، لیکن میں
ابھی صحیح سے نہیں بتا سکتا کہ اس سے مراد کیا ہے؟یا اگر یوں کہا جائے کہ مجھے
کتابوں کا ادب کرنا تو ہے، لیکن کس طرح
کرنا ہے؟ یہ نہیں معلوم!!!
اب
بات آتی ہے کتابوں کے ادب کی تو اس میں سب
سے پہلی چیز آتی ہے، "کتابوں سے محبت، اُس کتاب کے مطالعہ کا شوق"اب اگر کتاب سے
محبت ہوگئی تو پڑھنے کا دل خود بخود کرے گا"، اب یہاں محبت سے مراد یہ نہیں کہ جو کتاب دل کو اچھی لگی،
بس وہی پڑھنی، اس کے علاوہ کسی دوسری کو دیکھنا ہی نہیں یا جو یاد
نہیں ہوتی کتاب وہ اچھی بھی نہیں اور اس کو پڑھنا بھی نہیں، ہرگز ایسا مطلب نہیں۔
پیار
و محبت سے یوں لیا جاسکتا ہے کہ گویا آپ نہیں، وہ کتاب آپ سے محبت کرے، وہ کتاب آپ سے محبت کرے، آپ کتاب سے محبت کریں تو پھر کام بنتا ہے ورنہ
نہیں۔
اب اس کے بعد آ جاتی ہے کتابوں کی دیکھ بھال۔
اب
کچھ کتابیں پڑھنے والوں کی کتب کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کتب کی جلد کہیں اور جا رہی
ہوتی ہے اور کتب کے اندر کے صفحات کہیں جا رہے ہوتے ہیں، مطلب کے کتب کی وہ وقعت نہیں رہتی، جو خریدتے وقت ہوتی ہے، اب اگر آپ کتاب کا خیال رکھیں گے تو یقیناً کتاب
بھی آپ کا خیال رکھے گی، مطلب کے آپ کے دل میں اترے گی۔(ایک ہوتا ہے دل میں اترنا
اور ایک ہوتا ہے ذہن میں اترنا اور یہ دونوں الگ ہیں)
اب
آتا ہے کتاب کو پڑھنے کا ادب، اگر ہم خود
کو دیکھیں تو ہمیں کوئی لحاظ نہیں ہوتا، کتاب نیچے رکھی ہے تو خود اوپر بیٹھے ہیں، نہیں تو کتاب کو بالکل بیٹھنے کے مقام کے برابر
رکھا ہے، اگر کتاب کہیں گری ہے تو گری رہے،
اٹھانا نہیں، کسی جگہ سے کتاب شہید ہے تو اس کو جلد نہیں کرنا،
بلکہ گویا کہ اس کے پوری طرح ٹکڑے ٹکڑے
ہونے کا انتظار کرنا ہے، لہذا اب پورے مضمون کا خلاصہ یہ کہ کتاب سے محبت کیجئے، کتاب کی دیکھ بھال کیجئے، کتاب کا مطالعہ ہمیشہ کتاب کو اونچی جگہ رکھ کر
کیجئے، کتابوں کو سینے سے لگائیے، کتابوں کو اپنا دوست بنائیے۔
فرمانِ
حافظِ شانِ ملت:
"کتاب
کو سینے سے لگائیے کہ وہ سینے سے لگے گی تو سینے میں اُترے گی۔"