کتابوں کو پڑھتے وقت ادب و احترام لازم ہے اور بہتر
یہ ہے کہ جب پڑھنا شروع کریں تو درودِ پاک پڑھ کر کتاب شروع کریں، تاکہ کتاب سمجھنے میں آسانی ہو اور جب تک دلجمعی
ہو، پڑھتے رہیں اور ذرا سی بھی اُکتاہٹ
محسوس ہو تو پڑھنا بند کر دیں اور بے توجہی کے ساتھ ہرگز ہرگز نہ پڑھیں۔(سیرت
مصطفی، صفحہ 45)
مشہور مقولہ ہے کہ" با ادب بانصیب، بے ادب بے نصیب"یعنی ادب ہی ایسی چیز ہے، جو انسان کو جنت تک لے جاتی ہے۔
حضرت ابو علی بن دقاق علیہ الرحمۃ
فرماتے ہیں:"بندہ اطاعت سے جنت تک
اور ادب سے خدا عزوجل تک پہنچ جاتا ہے۔"(آداب مرشد کامل، ص26)
حضرت سیّدنا شیخ احمد سرہندی
المعروف مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ سادہ
کاغذ کا بھی ادب و احترام فرماتے تھے، چنانچہ ایک روز اپنے بچھونے پر تشریف فرما تھے
کہ یکایک بے قرار ہو کر نیچے اُتر آئے اور فرمانے لگے"معلوم ہوتا ہے کہ اس بچھونے کے نیچے کوئی کاغذ ہے"(آداب مرشد
کامل، صفحہ 29)
سبحان اللہ عزوجل!کیسی کتابوں اور
سادہ کاغذ کی نفیس تعلیم ارشاد فرمائی گئی ہے، ہمارے اسلاف کرام رحمھم اللہ السلام سادے کاغذ
کا بھی ادب فرمایا کرتے تھے، آج بعض لوگوں
کا یہ حال ہے کہ عموماً تاریخی کتابوں کو نہایت ہی لاپرواہی کے ساتھ پاکی، ناپاکی ہر حالت میں پڑھتے اور نہایت ہی بے توجّہی
کے ساتھ اِدھر اُدھر پڑھ کر ڈال دیا کرتے ہیں، اس طرح دینی کتابوں کو بھی بے توجّہی کے ساتھ
پڑھ لیتے ہیں، بلکہ دینی کتب کا بے حد ادب
کرنا چاہئے کہ ہمارے اسلاف صرف سادے کاغذ کے ٹکڑے کا بھی ادب فرمایا کرتے تھے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نےسترہ سال کی عمر میں
تعلیم وتدریس کی ابتداء کر دی تھی، حدیث شریف پڑھانے سے پہلے غسل کرتے، عمدہ بیش قیمت کے لباس ملبوس فرماتے، خوشبو لگاتے، پھر ایک تخت پر نہایت عجز و انکساری سے بیٹھتے
اور جب تک درس جاری رہتا، انگیٹھی میں عُود
اور لوبان ڈالتے رہتے تھے، درسِ حدیث کے
درمیان کبھی پہلو نہیں بدلتے تھے۔(تذکرۃ المحدثین، صفحہ 94)
سبحان اللہ عزوجل! ہمارے امام جب
درس حدیث ہورہی ہوتی تو پہلو بھی نہ بدلتے۔
عبداللہ بن مبارک بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں
درسِ حدیث میں حاضر ہوا، امام مالک روایتِ حدیث فرما رہے تھے، اسی دوران ایک بچھو کی نیش زنی کے باوجود آپ نے نہ پہلو بدلا نہ سلسلہ روایت ترک کیا اور نہ ہی آپ کے تسلسل کلام میں کچھ فرق
واقع ہوا، بعد میں آپ نے فرمایا: میرا اس
تکلیف پر اس قدر صبر کرنا، کچھ اپنی طاقت
کی بناء پر نہ تھا ، بلکہ محض رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے تھا۔(تذکرۃ المحدثین، صفحہ 94)
دینی کتب پڑھنے، پڑھانے میں بہت احتیاط و ادب ہونی چاہئے، کیونکہ بعض اوقات ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی
ہے، مگر ادب کی برکتوں کی وجہ سے وہ چیز
ہم باآسانی سمجھ بھی لیتے ہیں اور مصنفین
کی برکتیں بھی ہمیں میسر ہو جاتی ہیں، ہمارے پیر و مرشد امیر اہلسنت دامت برکاتہم
العالیہ فرماتے ہیں:
محفوظ سدا رکھنا شہا بے اَدَبوں
سے
مجھ سے بھی نہ سرزد کبھی بے اَدَ
بی ہو
( وسائلِ بخشش)