بدشگونی لینا
عالمی بیماری ہے، مختلف ممالک میں رہنے
والے مختلف لوگ، مختلف چیزوں سے ایسی ایسی
بد شگونیاں لیتے ہیں کہ انسان سن کر حیران
رہ جاتا ہے، مگر بدشگونی کہتے کسے ہیں؟آئیے جانتے ہیں:
شگون کامعنی ہے” فال لینا “ یعنی کسی چیز ، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا
سمجھنا، اسی وجہ سے بُرا فال لینے کو بدشگونی
کہتے ہیں۔(بدشگونی، ص 10)
حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بدفالی لینے والوں سے بیزاری کا اظہار ان الفاظ سے فرمایا:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ وَلَا
تُطُیِّرَ لَہٗ۔یعنی جس
نے بدشگونی لی یا جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں(یعنی وہ ہمارے طریقے پر نہیں)۔(بدشگونی،
ص 19)
مفسر شہیر حکیم
الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اسلام
میں نیک فال لیناجائز ہے اور بد فالی اور
بدشگونی لینا حرام ہے۔(باطنی بیماریوں
کی معلومات، صفحہ 286)
بدشگونی کی مختلف
صورتیں ہیں، مگر یہاں عورتوں میں پائی
جانے والی 5بدشگونیاں ذکر کی جاتی ہیں:
1۔بعض عورتیں رات
کے وقت کنگھی چوٹی کرنے یا ناخن کاٹنے سے بدشگونی لیتی ہیں کہ اس سے نحوست آتی ہے۔
2۔بعض عورتوں کا یہ
خیال ہوتا ہے کہ اگر بچہ سویا ہوا ہو، اس
کے اوپر سے کوئی پھلانگ کر گزر جائے یا چھوٹا بچہ کسی کی ٹانگ کے نیچے سے گزر جائے
تو اس کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔(بدشگونی، صفحہ17)
3۔جبکہ
بعض عورتوں میں یہ بدشگونی بھی پائی جاتی ہے کہ نومولود(یعنی بہت چھوٹے بچے) کے
کپڑے دھو کرنچوڑنے نہیں چاہئیں کہ اس سے بچے کے جسم میں درد ہوگا۔
4۔سورج
گرہن کے وقت حاملہ عورت کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پاؤں
کٹا یا چرا ہوا ہوگا، اسی طرح گرہن کے وقت
حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے
کہ اس سے بچے کے جسم پر غلط اثر پڑ سکتا ہے۔
5۔عورتوں
میں ایک بدشگونی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جب بادلوں میں بجلی کڑک رہی ہو اور سب سے بڑا
بچہ(پلوٹا/پہلوٹا) باہر نکلے تو بجلی اس پر گر جائے گی۔
اے عاشقان ِرسول!مذکورہ بالا بدشگو نیوں اور اس طرح کی تمام بدشگونیوں کی
شریعتِ مطہرہ میں کوئی حقیقت نہیں، بلکہ
شریعت میں تو بدشگونی لینے کو حرام قرار دیا
گیا ہے، بدشگونی لینا گناہِ کبیرہ ہے، شریعت میں اس کی بالکل اجازت نہیں، بدشگونی کے ذریعے انسان اپنے آپ کو مشکل میں مبتلا
کرتا ہے، اپنے سکون کو برباد کرتا ہے، بدشگونی انسان کو وسوسوں کے دلدل میں اُتار دیتی
ہے۔امام حسن علی بن محمد الماوردی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:
جان لو! بدشگونی سے زیادہ فکر کو نقصان پہنچانے والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی
شے نہیں۔ (بدشگونی، ص19)
بدشگونی کے حوالے سے مزید معلومات کے
لئے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ 128 صفحات پر مشتمل کتاب ”
بدشگونی “ کا مطالعہ کیجئے۔
کریں نہ تنگ خیالاتِ بد کبھی، کر دے شعور
و فکر کو پاکیزگی عطا یا ربّ
( وسائل بخشش، ص 93)