عورتوں
میں پائی جانے والی 5 بدشگونیاں
ہمارے
معاشرے میں جہالت کی وجہ سے رواج پانے والی خرابیوں میں ایک بَدشگونی بھی
ہےجس کو بد فالی بھی کہا جاتا ہے ۔
شیخُ الاسلام شہابُ الدّین امام احمد بن حجر مکی ہیتمی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب” اَلزَّوَاجِرُ عَن اقْتِرَافِ الْکَبَائِر “ میں بَدشگونی کے بارے میں دو حدیثیں نَقْل
کرنے کے بعد لکھتے ہیں : پہلی اور دوسری حدیثِ پاک کے ظاہِری معنی کی وجہ سے
بَدفالی کو گناہِ کبیرہ شمار کیا جاتا ہے اور مناسب بھی یہی ہے کہ یہ حکم اس شخص
کے بارے میں ہو جو بَدفالی کی تاثیر کا اِعتقاد رکھتا ہو جبکہ ایسے لوگوں
کے اسلام(یعنی
مسلمان ہونے نہ ہونے)میں
کلام ہے۔(الزواجر عن اقتراف الکبار ، باب السفر ، 1 / 326)
اس کی بنیادی طور پردو قسمیں ہیں : (1) بُرا شگون (2) اچھا شگون
فی زمانہ آج کی ماڈرن سوسائٹی کی خواتین میں بھی یہ عمل پایا جاتا ہے جو کہ
نری جہالت ہے یا یوں کہا جائے کہ بَدشگونی
لینا عالَمی بیماری ہے ، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں
سے ایسی ایسی بَدشگونیا ں لیتے ہیں کہ انسان سُن کر حیران رہ
جاتا ہے صد افسوس اس میں سر فہرست خواتین ہوتی ہیں جو انتہا کی حد تک ان سب پر یقین
رکھتی ہیں ۔
1. قینچی چلانے سے گھر میں لڑائی ہوتی ہے۔
2. دودھ ابل پڑا مصیبت آجائےگی کانچ ٹوٹ جانا ۔
3. جوتا اُتارتے وَقْت جوتے پر جوتا آنے سے بَدشگونی لیتے ہیں
۔
4. کبھی کسی وَقْت یا دن یا مہینے سے بَدفالی لیتے ہیں ۔
5. مُرغادن کے وَقْت اذان دے تو بَدفالی میں مبتلا ہوجاتے۔
6. جوانی میں بیوہ ہوجانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں۔
7. بیوہ کا سایہ نئی بیاہی دلہن کے لئے منحوس جاننا ،یہ بڑی
جہالت بہت سے مواقع پر بیوہ خواتین کی دل آزاری کا سبب بنتی ہے ۔
ابھی یہ ہی نہیں بلکہ کچھ لوگ ایمان کمزور ہونے کی اس حد تک جاتے ہیں کہ قرآن
مجید کا کوئی بھی صفحہ کھول کر سب سے پہلی آیت کے ترجمہ سے اپنے کام کے بارے میں
خودساختہ مفہوم اَخذکرکے فال نکالتے ہیں اس طرح کی فال نکالنا بھی ناجائز
ہے۔ حدیقہ ندیہ میں ہے : قرآنی فال ، فالِ دانیال اور اس طرح کی دیگر فال جو فی
زمانہ نکالی جاتی ہیں نیک فالی میں نہیں آتیں بلکہ ناجائز ہیں (حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ ، 2 / 26ملخصًا) قرآن پاک سے بَدشگونی لینا مکروہِ تحریمی ہے۔
حدیث شریف میں
بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے۔
بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُسْتَحَب ہے۔(الطریقۃ المحمدیۃ ، 2 / 17 ، 24)
چنانچہ اگر کسی نے بَدشگونی کا دل میں خیال آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر کچھ برا
نہیں لیکن اگر اس نے بَدشگونی کے خوف سےاس کا اِعتقاد رکھا اور اِسی اعتقاد
کی بنا پر اس کام سے رُک گیا تو اب گناہ گار ہوگا اور کسی چیز کو منحوس سمجھ کر
سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ اب مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار
ہوگا۔
ایسے ہی کچھ لوگ مہینوں کو منحوس جانتے ہیں اس میں بھی خواتین کی من گھڑت کہانیاں
کہ اس مہینے پیدا ہونے والا بچہ منحوس ہو گا شادی نہیں کرنی چاہئے وغیرہ وغیرہ جبکہ
تمام دن اور وقت اللہ پاک کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں بندوں کے اعمال واقع ہوتے
ہیں۔ جس وَقْت میں بندۂ مومن اللہ پاک کی اطاعت وبندگی میں مصروف ہو
وہ وَقْت مبارک ہے اور جس وَقْت میں اللہ پاک کی نافرمانی کے کام کرےوہ وَقْت اس
کے لئے منحوس ہے۔ درحقیقت اصل نُحوست کسی دن یا وقت میں نہیں بلکہ گناہوں
میں ہے۔ سب سے بڑی
نحوست انسان کی اپنی بد اعمالیاں اور فسق و فجور ہے۔
قرآن میں
ارشاد ہے:
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘-وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ
فَمِنْ نَّفْسِكَؕ (پ 5، النساء: 79)
ترجمہ کنز
الایمان: اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے۔
کچھ لوگ
چھینک آنے کو بھی برا جانتے ہیں ، علامہ عبدالمصطَفٰے اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے
ہیں : اب غور کرو کہ جب چھینک کورسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ’’ شاہد عدل(یعنی عادل گواہ) ‘‘ کا لقب دیا تو پھر بھلا چھینک منحوس اور بَدشگونی کا
سامان کیسے بن سکتی ہے؟ اس لئے لوگوں کو اس عقیدہ سے توبہ کرنی چاہئے کہ چھینک
منحوس اور بَدفالی کی چیز ہے۔ (جنتی زیور ،ص 431) خداوندِ کریم مسلمانوں کو اتباعِ سنت اور پابندی شریعت کی
توفیق بخشے آمین۔