اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

اخراجات زندگی کا ایک اہم عضو ہیں کہ جب تک زندگی ہے یہ ساتھ ساتھ ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب تک ہم قبر میں نہیں چلے جاتے یہ جاری وساری رہیں گے۔

اخرجات میں کفایت شعاری سے مراد اپنی ضروریات زندگی اور شوخیوں میں ہونے والے خرچ کو سمجھ کر کفایت شعاری اختیار کی جائے۔

آج کا انسان ہر وقت پریشان و بےچین رہتا ہے وجہ ،بے دریغ اخراجات ہے انسان کی جیب اسے جس بات کی اجازت نہ دے وہ خواہشیں ہیں۔ مختصراً ، ہم موڈرن دور کے لوگ اپنی ڈھاک اس موڈرن ورلڈ میں بٹھانے کے لیے غیر ضروری اخراجات پال لیتے ہیں جن کے پورا نہ ہونے سے ہم ڈپریسڈ رہنا شروع کردیتے ہیں اور پھر نتیجہ اللہ تعالی سے بڑھتے ہوئے شکوے۔ لوگوں سے بڑھتی ہوئی حسد اور دین سے دوری نکلتی ہے۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال جو کہ آج کے دور کا بڑا مسئلہ ہے وہ یہ کہ موبائل فون، اس پر حد یہ ہے کہ بندے کے پاس کھانے کوروٹی نہ ہو لیکن چلانے کو ٹچ والا موبائل ضرور ہواور تو اور صرف ٹچ والا موبائل نہ ہو بلکہ برانڈڈ کمپنی کا مہنگا ترین موبائل ہو۔ٹھیک ہے موبائل آج کل کی ضرورت ہے اس کے بغیر واقعی گزارا نہیں ہے لیکن گزارا بندہ 5000، یا 10000 کے موبائل سے بھی کرسکتا ہے ضروری ہے خود کو تکلیف میں ڈال کر اپنی اہم ضرورتوں کو مارکر 14000 یا 20000 کے موبائل خریدیں جائیں۔

ہاں اگر آپ واقعی افورڈ کرسکتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن یہاں بھی آپ کو دیکھنا چاہیے کہ اگر آپ کو اللہ تعالی نے بہترین نوازا ہے تو آپ اس میں سے غریبوں اور ضروتمندوں کی مدد کریں نہ کہ یہ بڑے بڑے موبائل خرید کر فضول خرچی کریں اس سے آپ کے نیک اعمال میں اضافہ نہیں ہوگا ۔

تو اخرجات میں کفایت شعاری کوئی کنجوسی نہیں ہوتی یہ سلیقہ شعاری ہوتی ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ "لو اب ہم یہ سستی چیزیں استعمال کریں گے" سستہ مہنگا کچھ نہیں ہوتا بات صرف ضرورت پوری ہونے کی ہے وہ پوری ہوگئی تو کیا سستا کیا مہنگا،ہم مسلمان ہیں الحمداللہ۔

اور ہر مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ وہ عاجزی وانکساری اور پرہیزگاری اختیار کریں یہ بڑے بڑے برینڈ ہماری عقل و سمجھداری کو کھاتے جارہےہیں ہم ان میں گم اللہ تعالی کو اور ان کے احکامات کو بھولتے جارہے ہیں۔

آئیں میں آپ ہم سب مل کر کفایت شعار معاشرہ تشکیل دیتے ہیں ہماری بھوک سادہ روٹی سالن سے بھی بجھ سکتی ہے نہ کہ ہم بڑے بڑے فاسٹ فوڈ میں پیسہ برباد کریں۔ہم مسلمان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں فانی ہیں ہم نے اپنا ہر پل آخرت کے لیے ذریعہ نجات بناناہے تو ان اخراجات کی ہماری نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔

ہاں ہم ان کو بچا کر کسی غریب کی بھوک مٹا سکتے ہیں، کسے بے گھر کو چھت دےسکتےہیں، کسی کمزور کی لاٹھی بن سکتے ہیں کہ یہ سب کام ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت سنوار دیتے ہیں ہمارا نام جنتیوں میں لکھ دیتے ہیں اور ایک مسلمان کی دولت یہی ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو اور وہ اس حالت میں وفات پائے کہ وہ ایمان پر ہو اور نیکی کی راہ پر گامزن ہو۔

اللہ تعالی ہم سب کو نیک ہدایت دے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والا بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم