ہمارا اِسلام
دین اور دنیا کے معاملات میں ہمیں مِیانہ روی کا درس دیتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کی
بہت ساری اُلجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ایک گھر کو اَمْن کا گہوارَہ
بنانے کے لیے ”اَخْراجات پر کنٹرول رکھنا“بھی بے حد ضروری ہے کہ اس میں خوشی و
خوشحالی اور سُکون و عافیت ہے۔ اِس کے بَرعکس اگر خرچ کو مُنَظَّم انداز میں نہ
چلایا جائے، پیسہ بے دَریغ استعمال کیا جائے،بچت پر توجہ نہ دی جائے اور اَخراجات
میں ”کفایت شِعاری (Frugality)“ کو ترک کردیا جائے تو بے سُکونی،بےاطمینانی،شِکوہ
وشکایت،گھریلو جھگڑے اور ذہنی الجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آیاتِ
مبارکہ:
1: وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا
كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے
بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(بنی
اسرائیل ،29 )
2: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ
یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی
کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ ( الفرقان ، 67)
احادیث
مبارکہ:
1: رسولِ کریم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان
ہے: خرچ میں مِیانہ رَوِی آدھی زندگی ہے۔(مشکوۃ المصابیح،ج2، ص227، حدیث:5067)
حکیم الامت مفتی
احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس
حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: خوش حالی کا دارو مَدار دو چیزوں پر ہے، کمانا،
خرچ کرنا ،مگر اِن دونوں میں ”خرچ کرنا“ بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں خرچ
کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِنْ شَآءَ اللہ ہمیشہ
خوش رہے گا۔(مراٰۃ المناجیح)
2: فرمانِ مصطفٰے صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جو مِیَانہ
رَوِی اِختیار کرتا ہےالله عَزَّوَجَلَّ اُسے
غنی فرما دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہےالله
عَزَّوَجَلَّ اُسے تنگ دَسْت کر دیتا ہے۔(مسند بزار،ج3، ص160،حدیث:946)
3: الله کے
رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :کہ خرچ کرو اور گن گن کر نہ دو ورنہ الله بھی تم کو گن گن کر دے گا اور جمع
کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ بھی تمہارا
حصہ جمع کر کے رکھے گا ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1029)
4: رسول اللّٰهُ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: کہ جب بندے صبح
اٹھتے ہیں تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ایک فرشتہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو عطا فرما اور دوسرا
کہتا ہے اے اللہ خرچ نہ کرنے
والے کا مال ضائع کردے۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر: 1222)
5: الله
کے
رسول صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ واٰلہٖ
وَسَلَّم فرماتے ہیں: کہ اعتدال بلفظ دیگر کفایت شعاری نبوت کے چوبیس
اجزاء میں سے ایک جز ہے (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2010)
6: رسول الله
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے اے ابن آدم خرچ کر میں
تجھ پر خرچ کرونگا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 993)
اس حدیث کی
تشریح کرتے ہوئے مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جبل ابو قبیس کے برابر سونا الله کی راہ میں خرچ کردے تو اس میں اسراف نہیں ہے لیکن ایک درہم
بھی الله کی نافرمانی
میں خرچ کرے تو یہ اسراف ہے
7: مسند احمد کی روایت کے مطابق رسول الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا کہ الله تعالی اپنے بندو
کو جو کچھ دیتا ہے اس سے ان کی آزمائش کرتا ہے اگر وہ اپنی قسمت پر راضی نہ ہو تو
اس کی روزی کو وسیع نہیں کرتا جبکہ سنن بیہقی کے مطابق حضرت علی رسول الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کا
قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو آدمی تھوڑی سی روزی پر راضی ہو جاتا ہے تو الله اس کے تھوڑے عمل پر
راضی ہوجاتا ہے
مختلف رائیں:
1:حضرت سَیّدُنا
امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے اپنے شہزادے حضرت حَمَّاد رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو نصیحت فرمائی: اپنے پاس موجود مال میں حُسنِ تدبیر(یعنی
کفایت شِعاری)سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔(امام اعظم کی وصیتیں،ص32)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج ہم مَحْض دِکھاوے
کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جھوٹی خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ
تر حصہ کبھی فیشن (Fashion) کے نام پر، کبھی مہنگے ریسٹورنٹ(Restaurant)
میں کھانا کھا کر،کبھی نئے موبائل، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے،کبھی بِلا
ضرورت گھر کی تزئین و آرائش کر کے اور کبھی تقریبات میں نِت نئے ملبوسات و جیولری
کے نام پر خرچ کر ڈالتے ہیں اور پھر طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتے، دوسروں پر
بوجھ بنتے اور لوگوں سے اُدھار مانگتے نظر آتے ہیں۔یاد رکھئے! ضرورت تو فقیر کی بھی
پوری ہوجاتی ہے لیکن خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہو پاتی۔
ماہانہ آمدنی کو مَعقول طریقے سے استعمال کیجئے،
غور فرمائیے کہ کب،کہاں ،کیوں ،کیسے اور کتنا خرچ کرنا ہے؟ مُعاشرے کے رُجحانات کو
مت دیکھئے بلکہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے اور ہرگز نہ سوچئے کہ ”لوگ کیا
کہیں گے؟“طرزِ زندگی میں سادَگی کو اپنامعمول بنائیے،مہینے کے آخر میں اپنی آمدنی
اور اَخْراجات کا مُوازَنہ (Comparison) کیجئے اور جو خرچ
فُضول نظر آئے آئندہ اُس سے پرہیز کیجئے۔ یوں آپ اپنے اَخْراجات پر قابو پالیں
گے اور کِفایت شِعاری کی بَرَکتیں نصیب ہوں گی۔ اِنْ
شَآءَاللهُ عَزَّوَجَلَّ