ابھی رہنے دو، ابھی رہنے دو کا جو
ماحول ہوتا ہے، ایسے افراد ہمارے گھروں، دفتروں، سکولوں، اور دکانوں میں رہ کر خود
بھی پریشان ہوتے ہیں اور معاشرے کو بھی پریشان کیا کرتے ہیں، اس طرح کی ٹال مٹول
سے ہمیں بچنا چاہیے۔
بلا
وجہ کاموں کو کل پر مؤخر (Pending) کرنا اس حوالے سے
ہمارا دینِ اسلام ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے، اور اس کے کیا نقصانات ہیں درج ذیل
میں ہم یہ ملاحظہ کریں گے۔
قرآنِ
کریم میں ہے وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ ۔ ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹی
طمع نے تمہیں فریب دیا۔ (سورۂ حدید، آیت: 14)
اسکی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادت نے تمہیں فریب میں ڈال دیا۔
کل کی حقیقت: علامہ ابنِ جوزی فرماتے ہے : کل کا
تصور ایک دھوکا ہے۔
انگلش
کا محاورہ: Tomorrow Never Come, Do your Work Today۔ (کل کبھی نہیں
آنی لہذا اپنے کام آج ہی کر لو )
نبوت کی ایک صفت: امام غزالی
نے احیاء العلوم میں نبوت کی چار صفات میں سے ایک (آج کا کام کل پر نہ چھوڑنا) بھی
ذکر کیا ہے۔ (احیاء العلوم)
حضرتِ عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ سے کسی
نے کہا کہ آج کا کام رہنے دیجئے کہ کر کیجئے گا، تو فرمایا اگر آج کا کام کل پر
چھوڑوں گا تو کل ایک اور کام ہو گا، پھر دو کام ایک ساتھ کرنا پڑے گے۔ (عمر بن عبد
العزیز کی 425 حکایات)
دن کا اعلان :
روزانہ صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت ’’ دن‘‘ یہ اعلان
کرتا ہے : اگر آج کوئی اچّھا کام کرنا ہے تو کرلو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر
نہیں آؤں گا ۔ (شُعَبُ الْاِیْمَان ، ج۳، ص۳۸۶ ، حدیث:۳۸۴۰)
علامہ ابنِ جوزی رحمۃُ اللہِ
علیہفرماتے
ہے : اس شخص کی مثال جو کہتا ہے آج کا کام کل کر لوں گا، ایسی ہے جیسے کوئی شخص ایک درخت کے
پاس آئے اور درخت کو مضبوط دیکھ کر نا کاٹے گا پھر جب ایک عرصے کے بعد کاٹنے کیلئے
آئے گا تو درخت مضبوط اور یہ شخص کمزور
ہو گا۔ لہذا ٹال مٹول اور آج کا کام کل پر چھوڑنے والا شخص بھی اپنے مقاصد میں
کامیاب نہیں ہوتا۔ (منہاج القاصدین)
اللہ پاک ہمیں
اپنے اوقات کو غنیمت سمجھتے ہوئے آج کا کام آج ہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم