ہمیں آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا چاہئے،  بلکہ ہمیں آج کا کام آج ہی کرنا چاہئے، ہمیں کیا معلوم کہ کل ہمارے ساتھ کیا ہوگا، ہم زندہ ہوں گے یا نہیں اور اگر آج کا کام کل پر چھوڑیں گے، تو کل کے بھی تو کام ہوں گے، اس طرح کل کے جو ہمارے کام ہوں گے، وہ بھی نہ ہو سکیں گے، اس طرح کرنے سے ہمارا کل کا جدول بھی خراب ہو گا، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنا آج کا کام کل پر نہ چھوڑتے، ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کام میں مصروف تھے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے سیر و تفریح کے لئے چلے جائیں، تو آپ نے فرمایا کہ میرا آج کا کام تم لوگ کرو گے؟ انہوں نے کہا" کہ آپ اپنا آج کا کام کل کر لیجئے گا"، تو آپ نے فرمایا : کہ میں ایک دن کا کام بمشکل کرتا ہوں، تو دو دن کا کام اکٹھا کیسے کروں گا۔

ہمیں آج کا کام آج ہی کرنا چاہئے، ایسے کل کریں گے، کل کریں گے، ایسا کرنے سے بعد میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے پھر بہت سارے کام اکٹھے ہمارے سر پر آ جاتے ہیں اور پھر ہم کر نہیں سکتے۔مثال کے طور پر اگر طالب علم اپنا روز کا سبق یاد نہ کرے، بلکہ یہ کہتا رہے کہ کل کر لوں گا، تو اس طرح کرنے سے امتحان سر پر آ جائیں گے اور اسے سارا اکٹھا یاد کرنا ہوگا اور سارا سب سبق اکٹھا یاد کر نہیں پاتا، تو اس طرح پھر امتحان میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ایسے لوگ جو کہتے ہیں کہ کل کر لیں گے، کل کرلیں گے، تو کل تو کبھی آئے گا ہی نہیں اور وہ خود کو بھی پریشان کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی پریشان کیا ہوتا ہے، ہمیں اس طرح کرنے سے بچنا چاہئے۔

حضرت امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ منہاج القاصدین میں فرماتے ہیں کہ "جو شخص یہ کہتا ہے کہ ابھی رہنے دو کل کرلیں گے، تو وہ ایک ایسا آدمی ہے جو درخت کو کاٹنے کے لئے جاتا ہے، اور درخت کو کاٹنا چاہتا ہے، لیکن وہ دیکھتا ہے کہ درخت بڑا مضبوط ہے، اس سے کٹتا نہیں ہے، تو وہ یہ سوچ کر چلا جاتا ہے کہ اگلے سال اسے آکر کاٹ لوں گا، آپ فرماتے ہیں کہ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اگلے سال جب آؤں گا، تو درخت مزید مضبوط ہو جائے گا، اور میری عمر بڑھ جائے گی اور میرے اندر مزید کمزوری آ جائے گی، تو پھر اسے کاٹنا دشوار اور مشقت والا عمل ہوجائے گا۔

اس طرح بعض لوگ اپنے فرائض و واجبات کو بھی یہی سوچ کر ترک کردیتے ہیں کہ کل کرلیں گے، نماز نہیں پڑھتے اور یہ کہہ کر کہ ابھی تو نوجوان ہیں، بعد میں پڑھ لیں گے، ابھی تو پوری عمر باقی ہے، بعد میں پڑھ لیں گے۔

ایسے لوگوں کو چاہئے کہ توبہ کریں اور آج سے ہی شروع کریں، کیا معلوم کہ کس وقت موت کا پیغام آجائے کیونکہ موت نہ تو جوانی کا لحاظ کرتی ہے، نہ بڑھاپے کا اور پھر جوانی میں جتنی طاقت ہوتی ہے، بڑھاپے میں اتنی نہیں، بلکہ بڑھاپے میں اعضاء بھی کمزور ہوجاتے ہیں، تو بڑھاپے میں تو ہم ادا نمازیں ہی بمشکل پڑھ سکیں گے، تو وہ جوانی والی قضاء نمازیں کیسے لوٹائیں گے، بلکہ ہمیں ایک جدول بنا لینا چاہئے اور اس کو کہیں سامنے لگا دیں، جس پر ہر وقت ہماری نظر پڑتی رہے اور پھر ہر کام اسی جدول کے مطابق کریں، تو ہمیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم