شرح سلامِ رضا

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: بنت اشرف عطاریہ مدنیہ  ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان) گوجرہ منڈی بہاؤ الدین

(29)

سببِ ہر سبب منتہائے طلب

عِلّتِ جملہ علّت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

سبب: وسیلہ۔منتہا:منزل مقصود۔ طلب: تلاش ۔علت:باعث۔جملہ: تمام۔

مفہومِ شعر:

ہر وجود کا سبب اور ہر طلب کی انتہا حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات ہے۔اس کائنات کو معرضِ وجود میں لانے کا سبب جو ذات بنی اس پہ لاکھوں سلام۔

شرح:سببِ ہر سبب/علتِ جملہ علت:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بلاشبہ ہر شے کے وجود کا سبب ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے عیسیٰ! محمدِ عربی(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)پر ایمان لاؤ اور اپنی اُمّت میں سے ان کا زمانہ پانے والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ جنت و دوزخ بناتا۔([1]) ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریلِ امین علیہ السلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے :آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے:بے شک میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ اے محبوب! میرے نزدیک تمہاری جو قدر و منزلت ہے وہ انہیں بتاؤں اور اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو  پیدا نہ فرماتا۔ (2)

منتہائے طلب:

اس کائنات کو پیدا کرنے کی وجہ حضور ہیں تو معرفتِ الٰہی کو پانے اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ بھی آپ ہی ہیں۔قرآنِ پاک میں ہے:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ0 (پ3، الِ عمرٰن:31) ترجمہ: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

معلوم ہوا!نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت ہی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے اللہ پاک کی محبت کو پایا جا سکتا ہے اور آپ کی محبت گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے ۔

(30)

مصدرِ مظہریّت پہ اظہر درود

مظہرِ مصدریّت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

مصدر: اصل۔ مظہریّت: ظہور ہونا۔ اَظہر: روشن۔ مظہر: جائے ظہور۔ مصدریّت: صادر ہونا۔

مفہومِ شعر:

دُرود ہو اس ذات پر جو اللہ پاک کے نور کے ظہور کا سرچشمہ ہے اور لاکھوں سلام اس پر جس کے نور کا ظہور اللہ پاک کی ربوبیت کا ظہور ہے۔

شرح:

اللہ پاک فرماتا ہے:لَولَاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوبِیَّۃ اگر محمد نہ ہوتے تو میں اپنے رب ہونے کو ظاہر نہ کرتا۔ (3) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! مجھے بتائیے کہ اللہ پاک نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا فرمایا؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے جابر! بے شک اللہ پاک نے تمام اشیا سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ پاک کی مشیت کے موافق جہاں چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم ، جنت تھی نہ دوزخ، فرشتے تھے نہ آسمان و زمین، سورج تھا نہ چاند، جن تھے نہ انسان ۔(4)

(31)

جس کے جلوے سے مُرجھائی کلیاں کھلیں

اس گلِ پاک مَنبت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

جلوہ: دیدار، جھلک۔ مُرجھائی: سوکھی۔

گل: پھول۔ مَنبت: اگا ہوا۔

مفہومِ شعر:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دیدار سے دلوں کی مرجھائی کلیاں کھلتی ہیں۔ اس خوبصورت پھول کی تازہ اُٹھان پر لاکھوں سلام۔

شرح:

ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک نے حسن و جمال کی لازوال دولت عطا فرمائی۔اس کائنات کا سارا حسن نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسن و جمال کا صدقہ ہے۔ جو ایک بار نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت کر لیتا وہ آپ کا دیوانہ ہو جاتا، آپ کے چہرے کی زیارت سے غمزدوں کے غم دور ہو جاتے، آپ کے دیدار سے دلوں کی مرجھائی کلیاں کھل اٹھتی ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ٹکٹکی باندھ کر آپ کے مبارک چہرے کی زیارت کرتے رہتے اور آپ کے جلووں سے لطف اندوز ہوتے کیونکہ اللہ پاک نے آپ کو بے مثال حسن و جمال عطا فرمایا ۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی حضور کو یوں دیکھ رہے تھے کہ نظر ہٹاتے ہی نہیں تھے۔ چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کی:بِاَبِي اَنْتَ وَاُمِّي اَتَمَتَّعُ مِنَ النَّظَرِ اِلَيْكَ یعنی میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں آپ کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔(5)

حُسنِ یوسف پہ کٹیں مِصْر میں اَنگشتِ زَناں

سَر کٹاتے ہیں تِرے نام پہ مردانِ عرب

(32)

قدِ بے سایہ کے سایۂ مرحمت

ظلِّ ممدودِ رافت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

مرحمت:رحمت و کرم۔ ظل: سایہ۔ ممدود: دائمی۔ رافت: مہربانی۔

مفہومِ شعر:

لاکھوں درود اور سلام ہوں اس ذات پر کہ جس کے جسم کا سایہ نہ تھا، البتہ! اس کے رحم و کرم کا سایہ ساری دنیا پر پھیلا ہوا ہے۔

شرح:قدِ بے سایہ:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسن و جمال کی لطافت کا یہ عالم ہے کہ آپ کے جسم مبارک کا سایہ نہ تھا۔ جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام ابنِ سبع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نور تھے، اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا ۔ اس قول کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں حضور کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ نے فرمایا: وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا یعنی یا اللہ! مجھ کو سراپا نور بنا دے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ سراپا نور تھے تو پھر آپ کا سایہ کہاں سے پڑتا!(6)

سایۂ مرحمت:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ظاہری طور پر سایہ نہ تھا، لیکن حقیقت میں تمام جہانوں کیلئے آپ سایۂ رحمت ہیں۔

ظل ممدود:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال تک دوڑتا رہے تب بھی اسے طے نہ کر سکے گا،اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ0 (پ27،الواقعۃ:30)(ترجمہ:اور دراز سائے میں۔)(7)

یہاں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سایۂ رحمت کو ظلِّ ممدودِ رافت کہا گیا ہے۔ کیونکہ آپ کا سایۂ رحمت بھی ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لئے کہ آپ نے اپنی گنہگار اُمّت کو ہمیشہ یاد رکھا، بوقتِ پیدائش ،سفرِ معراج یہاں تک کہ قیامت کے دن بھی نہ بھولیں گے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1]مستدرک،3/ 516 ، حدیث : 4285 2خصائص ِکبریٰ ، 2 / 330ملتقطاً 3مکتوباتِ امام ربانی،2/146،مکتوب:124 4المواھب اللدنیہ،1/37 5 الشفا، 2 / 20 6شرح زرقانی،5/524-525 7بخاری،3/345، حدیث:4881