ابو منصور محمد تیمور عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور
، پاکستان)
والدین کے بعد سب سے زیادہ حق رشتہ داروں کا آیا ہے چنانچہ سب سے پہلے رشتہ داروں کا فرمایا
گیا کہ انہیں ان کا حق دو چنانچہ اللہ پاک نے قران پاک میں ارشاد فرمایا : فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ترجمۂ کنزالایمان: تو رشتہ دار کو ا س کا حق
دو ۔ ( سورۃ الروم آیت نمبر 38 )
یعنی اے وہ شخص!
جسے اللہ تعالیٰ نے وسیع رزق دیا،تم اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن ِسلوک اور احسان
کر کے ا س کا حق دو ۔ (صراط لجنان)
(1)رشتہ
داروں کو نفقہ دینا: اس آیت
سے مَحْرَم رشتہ داروں کے نَفَقہ کا وُجوب
ثابت ہوتا ہے (جبکہ وہ محتاج ہوں )۔
(مدارک،
الروم، تحت الآیۃ: 38 ص909)
(2)
ثواب کا مستحق کون: اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص رشتہ دارو ں سے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات ،نام و نَمو د
اور رسم کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ
محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کر ے وہی ثواب کا مستحق ہے۔( صراط الجنان)
(3)
صلہ رحمی کرنا : اُن
کے ساتھ صِلہ رحمی کرو ، ان سے محبت سے پیش آؤ۔ (تفسیر صراط الجنان، تحت الآیۃ، سورۃ بنی اسراءیل، آیت نمبر 26)
(4)
خبر گیری کرنا : ان سے میل جول رکھو اور ان کی خبر گیری کرتے رہو ۔ (تفسیر
صراط الجنان)
(5) رشتہ داروں کی مدد کرنا : ضرورت کے موقع پر ان کی مدد کرو اور ان کے ساتھ
ہر جگہ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ (تفسیر صراط الجنان)
رشتہ
داروں کا خرچ اٹھانے سے متعلق حکمِ شرعی یہ
ہے کہ اگر رشتے دار مَحارم میں سے
ہوں اور محتاج ہوجائیں تو اُن کا خرچ اُٹھانا یہ بھی ان کا حق ہے اور
صاحب ِاِستطاعت رشتہ دار پر لازم وواجب ہے۔ ( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: 25،
3 / 172)