والدین کے بعد سب سے زیادہ حق رشتہ داروں کا  آیا ہے چنانچہ سب سے پہلے رشتہ داروں کا فرمایا گیا کہ انہیں ان کا حق دو چنانچہ اللہ ‏پاک نے قران پاک میں ارشاد فرمایا ‏: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ترجمۂ کنزالایمان: تو رشتہ دار کو ا س کا حق دو ۔ ‏( سورۃ الروم آیت نمبر 38 )‏

یعنی اے وہ شخص! جسے اللہ تعالیٰ نے وسیع رزق دیا،تم اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن ِسلوک اور احسان ‏کر کے ا س کا حق دو ‏۔ (صراط لجنان)

‏(1)رشتہ داروں کو نفقہ دینا: اس آیت سے مَحْرَم رشتہ داروں کے نَفَقہ کا وُجوب ثابت ہوتا ہے (جبکہ وہ محتاج ہوں )۔‏

‏(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: 38 ص909)

‏(2) ثواب کا مستحق کون: ‏اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص رشتہ دارو ں سے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات ،نام و نَمو د اور رسم کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ ‏محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کر ے وہی ثواب کا مستحق ہے۔( صراط الجنان)

‏(3) صلہ رحمی کرنا : اُن کے ساتھ صِلہ رحمی کرو ، ان سے محبت سے پیش آؤ۔ (تفسیر صراط الجنان، تحت الآیۃ، سورۃ بنی اسراءیل، آیت نمبر 26)‏

‏(4) خبر گیری کرنا :‏ ان سے میل جول رکھو اور ان کی خبر گیری کرتے رہو ‏۔ (تفسیر صراط الجنان)‏

‏ (5) رشتہ داروں کی مدد کرنا : ضرورت کے موقع پر ان کی مدد کرو اور ان کے ساتھ ہر جگہ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ (تفسیر صراط الجنان)‏

رشتہ داروں کا خرچ اٹھانے سے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ اگر رشتے دار مَحارم میں سے ہوں اور محتاج ہوجائیں تو اُن کا خرچ اُٹھانا یہ ‏بھی ان کا حق ہے اور صاحب ِاِستطاعت رشتہ دار پر لازم وواجب ہے۔ ‏( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: 25، 3 / 172)‏

اللہ پاک ہمیں اپنے ذو رحم رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین