اولاد دینے والا کون؟

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: بنت طارق عطاریہ مدنیہ  ناظمہ جامعہ فیضانِ ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

لڑکیاں بھی اللہ پاک کی نعمت ہیں اور لڑکے بھی، پھر کسی کو اللہ نے صرف بیٹیاں عطا فرمائیں، کسی کو صرف بیٹے، کسی کو بیٹے بیٹیاں دونوں اور کسی کو بیٹے عطا فرمائے نہ بیٹیاں۔ یہ تقسیم اللہ پاک کی حکمت او رمصلحت پر مبنی ہے جیسا کہ اس کا فرمان ہے:لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ١ؕ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ0 اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا١ۚ وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا١ؕ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ0 (پ25،الشوریٰ:50-49)ترجمہ:آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہے پیدا کرے ۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں ملا دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے، بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔

يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا:

یعنی اللہ پاک جسے چاہے صرف بیٹیاں دے اور بیٹا نہ دے، جسے چاہے بیٹے دے اور بیٹیاں نہ دے، جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو۔ وہ مالک ہے اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے۔ تفسیر قرطبی میں ہے: اس آیت کا حکم اگرچہ عام ہے مگر یہ انبیائے کرام کے متعلق نازل ہوئی، چنانچہ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا سے مراد حضرت لوط علیہ السّلام ہیں، جنہیں اللہ پاک نے دو بیٹیاں دیں اور بیٹے نہ دیئے، يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَسے مراد حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہیں کہ جن کو 8 بیٹے دیئے، بیٹیاں نہ دیں، يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں کہ جن کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیں، جبکہ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا سے مراد حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں کہ جن کی کوئی اولاد نہ تھی۔([1])

معلوم ہوا! اولاد ہونے یا نہ ہونے یا بیٹے یا بیٹیاں ہونے میں ہمارے لیے کسی نہ کسی نبی کی زندگی میں نمونہ ہے۔ نیز یہ جاننا بھی فائدے سے خالی نہیں کہ اس آیت میں بیٹیاں دینے کو بیٹے دینے سے پہلے ذکر فرمانے کی چند وجوہ یہ ہیں:

1-بیٹے کا پیدا ہونا خوشی کا اور بیٹی کا پیدا ہونا چونکہ غم کا باعث ہے، لہٰذا اگر پہلے بیٹے کا ذکر ہوتا پھر بیٹی کا تو ذہن خوشی سے غم کی طرف منتقل ہوتا۔ مگر جب پہلے بیٹی دینے کا ذکر فرمایا اور پھر بیٹا دینے کا تو انسان کا ذہن غم سے خوشی کی طرف منتقل ہو گا اور یہ کریم کی عطا کے زیادہ لائق ہے۔

2-پہلے بیٹی ہو تو بندہ اس پر صبر و شکر کرے گا کیونکہ اللہ پاک پر اعتراض ممکن نہیں، مگر جب اسکے بعد بیٹا ہو گا تو بندہ جان لے گا کہ یہ اللہ پاک کا فضل و احسان ہے، لہٰذا اس کا زیادہ شکر بجا لائے گا۔

3-عورت کمزور، ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہے، اس لیے عورت کے ذکر کے بعد مرد کے ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ جب عجز اور حاجت زیادہ ہو تو اللہ کی عنایت اور اس کا فضل زیادہ ہوتا ہے۔

4-بعض افراد کے نزدیک بیٹی کا وجود حقیر اور ناگوار ہوتا ہے، زمانہ جاہلیت میں عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، چنانچہ یہاں بیٹیوں کا ذکر بیٹوں سے پہلے کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ لوگ اگرچہ بیٹی کو حقیر جانتے ہیں مگر اللہ پاک کو بیٹی پسند ہے، اس لیے اس نے بیٹی کے ذکر کو بیٹے کے ذکر پر مقدم فرمایا۔ (2)

بیٹے اور بیٹیاں دینے یا نہ دینے کا اختیار اللہ پاک کے پاس ہے:

اولاد دینے کا اختیار اور قدرت چونکہ صرف اللہ پاک کے پاس ہے، لہٰذا اگر بانجھ افراد چاہیں کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں کسی بھی مصنوعی طریقے سے ان کے ہاں اولاد ہو جائے یعنی ٹیسٹ ٹیوب و کلوننگ وغیرہ کے ذریعے، تو انہیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اولاد کا حصول اللہ پاک کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح عورت کے بس میں نہیں کہ وہ جو چاہے پیدا کرے۔ بیٹے کی خواہش رکھنے والوں کا بیٹی پیدا ہونے پر عورت کو مشقِ ستم بنانا، اسے طرح طرح کی اذیتیں دینا، بات بات پر طعنوں کے نشتر چبھونا، آئے دن ذلیل کرتے رہنا، صرف بیٹیاں پیدا ہونے پر اسے منحوس سمجھنا اور طلاق دے دینا، قتل کی دھمکیاں دینا بلکہ بعض اوقات قتل ہی کر ڈالنا قطعاً درست نہیں۔ افسوس! آج مسلمانوں نے اسی طرزِ عمل کو اپنا لیا ہے جو کفار کا تھا۔ جس کا تذکرہ پارہ 14، سورۃ النحل کی آیت نمبر 58 اور 59 میں یوں کیا گیا ہے: ترجمہ:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا؟خبردار! یہ کتنا بُرا فیصلہ کررہے ہیں ۔

یعنی اسلام نے تو عورت کو ذلت و رسوائی کی چکی سے نکال کر معاشرے میں عزت و مقام عطا کیا مگر آج کے مسلمان اسے دوبارہ اسی چکی میں پسنے کے لئے دھکیل رہے ہیں۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیجئے اور بیٹیوں کی قدر کیجئے! کیونکہ اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: عورت کی برکت ہی یہ ہے کہ اس کے ہاں سب سے پہلے بیٹی پیدا ہو۔(3) ایک روایت میں ہے: بیٹیوں کو بُرا مت کہو! بیشک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔(4) اسی طرح ایک روایت میں ہے: جس پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کیلئے جہنم سے روک بن جائیں گی۔(5)

بلکہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیٹیوں سے محبت فرما کر سب کے لئے عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب بی بی فاطمہ رضی اللہُ عنہا تشریف لاتیں تو حضور کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے، یونہی جب آپ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ کھڑی ہو کر حضور کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ بٹھا دیتیں۔(6)

ایک طرف حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسوۂ حسنہ اور قرآن و سنت کے احکام اور دوسری طرف مسلمانوں کا اس کے برعکس عمل نظر آتا ہے۔ آج کے مسلمان دورِ جاہلیت کی روایات کو زندہ کرتے نظر آتے ہیں اور اسلامی تعلیمات بھلا دینے کے باعث بیٹی کی ولادت کو برا سمجھنے اور بے رحمی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں عورت کو بیٹی پیدا ہونے پر قتل کر دیا گیا۔ ابھی 2022 حال ہی میں پہلی بیٹی کی پیدائش پر 7 دن کی بیٹی کو7 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ الامان والحفیظ

آج کے دور میں علمِ دین سے بہرہ ور ہونا بہت ضروری ہے تاکہ زمانہ جاہلیت کی ان رسومات کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور شخص بیٹی ہونے یا اولاد نہ ہونے کو عورت کا قصور سمجھنے کے بجائے رب کریم کی رضا و مشیت سمجھتا ہے جبکہ جاہل آدمی سفاکی پر اتر آتا اور عورت کو قصور وار ٹھہرا کر اس پر ظلم ڈھاتا ہے۔ معاشرتی پستی کا تو یہ عالم ہے کہ عورتیں ہی عورتوں کو قصور وار ٹھہراتی ہیں، ساس بہو پر ظلم ڈھاتی، طعنوں کی بھرمار کرتی اور بعض اوقات بیٹے کو طلاق دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ لہٰذا علم حاصل کیجئے تا کہ حضور کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر سکیں اور یوں دنیا و آخرت کی کامیابی اور معاشرے میں امن و امان کا قیام ممکن ہو۔

اللہ کریم تمام مسلمانوں کو بیٹیوں کی قدر اور حضور کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] تفسیر قرطبی،الجزء : 16، 8/36 2 تفسیر رازی،9/610 3 مکارم الاخلاق للخرائطی، 9/610 4مسند امام احمد،6/134، حدیث:17378 5 مسلم، ص1085، حدیث:6693ملتقطاً 6 ابوداود،4/454،حدیث:5217