روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔رمضان المبارک کے روزے مسلمانوں پر فرض کئے گئے ہیں۔فرض و واجب کے علاوہ جتنے روزے ہیں وہ سب نفل روزے کہلاتے ہیں۔ ان نفل روزوں میں وہ روزے شامل ہیں جنہیں مسنون یا مستحب، مندوب کہا جاتا ہے۔رمضان المبارک کے بعد روزہ اعمالِ صالحہ کے لیے سب دنوں سے افضل ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے:’’اللہ پاک کو عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ کسی دن کی عبادت پسندیدہ نہیں۔ اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہر شب کا قیام(نمازِ تہجد پڑھنا) شبِ قدر کے برابر ہے۔ عرفہ کا روزہ صحیح حدیث سے ہزاروں روزوں کے برابر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’ عرفہ کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔‘‘ (ترمذی )

عرفہ کے بعد سب دنوں سے افضل روزہ عاشورا یعنی دسویں محرم کا روزہ ہے اور بہتر یہ ہے کہ نویں کو بھی رکھے۔اس میں ایک سال گذشتہ کے گناہوں کی مغفرت ہے۔جس نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا گو یا اس نے تمام سال روزہ رکھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’ مجھے اللہ پاک پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عاشورا کا روزہ خود رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم فرمایا۔ ( بخاری و مسلم)

شش عید یعنی شوال میں چھ دن کے روزے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے رمضان کے روزے رکھےپھر ان کے بعد چھ شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا (یعنی پورے سال کا) کہ جو ایک نیکی لائے گا اسے دس ملیں گی۔ ماہِ رمضان کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور ان چھ دنوں کے بدلے میں دو مہینے تو پورے سال کے روزے ہو گئے۔( نسائی ) ایک اورحدیث میں ہے:جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ ( طبرانی )

ایک حدیث شریف میں آیا ہے:’’ جو 27 رجب کا روزہ رکھے اللہ پاک اس کے لیے پانچ برس کے روزوں کا ثواب لکھے ‘‘ اور یوں تو روزہ رکھنے کے لیے پورا مہینا ہے جب چاہے رکھے ثواب ہے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ان میں سے ایک یہ کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھوں۔ (بخاری و مسلم)پورے سال میں پانچ ایام ایسے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے ۔ شوال کی پہلی تاریخ، ذی الحجہ کی 9,10,11,12 کو روزہ رکھنا ممنوع ہے ۔ اس کے علاوہ پورا سال جب چاہیں روزہ رکھ سکتے ہیں ۔ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنے کو صومِ داؤد کہتے ہیں ۔یہ تمام نفل روزوں میں اللہ پاک کے نزدیک افضل اور پسندیدہ عمل ہےاور صومِ داؤد کو نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی پسند فرمایا۔اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ نفل روزے رکھنے اور آخرت کے لیے نیکیاں ذخیرہ کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔