اسلام نے فرض روزوں کے علاوہ مختلف ایام
کے نفل روزوں کی بھی ترغیب دی ہے۔ کیونکہ روزہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے یہی
وجہ ہے کہ نبی امی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زندگی کا معمول تھاکہ وہ فرض روزوں کے علاوہ نفل
روزوں کا بھی بطورخاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
نفل روزوں
کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
1. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول
الله صلى الله علیه و آله و سلم :ما من عبد يصوم يوما في سبيل الله إلا باعد اللہ بذلک اليوم ،وجهه عن النار سبعين خريفا۔متفق عليه واللفظ لمسلم
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:
جو شخص بھی ایک دن اللہ پاک کی رضا کے لئے روزہ رکھے تو اللہ پاک اس ایک دن کے
بدلے اس کے چہرے کو آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ
ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ (أخرجہ البخاری فی الصحيح، کتاب الجھاد
و اسیر، باب فضل الصوم فی سبيل الله، رقم 2840 دارالکتب العلمیہ-ومسلم فی الصحيح،
کتاب الصیام، باب فضل الصيام فی سبيل الله ،رقم: 2711 ،دارالکتب العلمیہ)
2. عن عبدا
لله قال: قال لنا رسول اللہ صلى الله عليہ و آلہ و سلم :يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ،مَنِ اسْتَطَاعَ
مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ،
وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ متفق عليه، واللفظ
لمسلم
حضرت عبد الله بن مسعود رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں فرمایا: اے نوجوانو! تم میں سے جو
عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہ کو
جھکانا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جو نکاح کی طاقت نہ رکھے تو اس کے لیے
ضرور ی ہے کہ وہ روزے رکھے، بے شک یہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ
ہے اور مذکورہ الفاظ میں مسلم کے ہیں۔ (2: أخرجہ البخاری فی صحيح،
کتاب النکاح، باب من لم يستطع اباء نسیم،رقم : 1905 دارالکتب العلمیہ ومسلم فی الصحیح،
کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ ،رقم
3398 دار الکتب العلمیہ)
3. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِلِيِّ،
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ
اللَّهِ جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ
وَالأَرْضِ۔رواه الترمذي
حضرت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے:حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله پاک
کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے تو اللہ پاک اس کے اور جہنم کے در میان زمین و آسمان
کے درمیان فاصلے جتنی خندق بنادیتا ہے۔ (اخرجہ الترمذي فی السنن، کتاب
فضائل الجھاد، باب ما جاء فی فضل الصوم فی سبيل الله، رقم :1624 دارالکتب العلمیہ)
4. عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله
عليه و سلم قال : من صام يوما ابتغاء وجه الله تعالى بعده الله عز و جل من جهنم كبعد
غراب طار وهو فرخ حتى مات هرما ۔( اخرجہ احمد
بن حنبل فی المسند، 2 : 526، رقم :10820)
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ پاک کی رضا کے
لئے ایک دن روزہ رکھے تواللہ پاک اسے جہنم سے اس قدر دور کر دیتا ہے ، جیسے کوئی
کوّاجب آڑا تو بچہ تھا اور وہ مسلسل اڑتارہا یہاں تک کہ بڑھاپے کے عالم میں اسے
موت آگئی۔
سال بھر میں رکھے جانے والے چند روزے
چونکہ اسلامی ماہ کا پہلا مہینا محرم
ہے لہٰذا محرم کے نفل روزوں کے فضائل احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ،
بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صَلَاةُ اللَّيْلِ( مسلم،رقم 2755 دار الکتب
العلمیہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی: کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ
پاک کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔
بالخصوص یوم ِعاشورا(دس
محرم ) کار
وزہ ر کھناچاہیے کہ اس دن کا روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہوں کی معافی ہے۔
صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ
السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ( مسلم، دارالکتب العلیہ ،رقم۔ 2746)مجھے
اللہ پاک پر گمان ہے کہ عاشورا کار وز ہ ا یک سال قبل کے گناہ مٹادیتا ہے۔
عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ غُفِرَ
لَهُ سَنَةٌ أَمَامَهُ، وَسَنَةٌ بَعْدَهُ۔(سنن
ابن ماجہ دار الکتب العلمیہ الرقم 1731)
حضرت قتادہ بن نعمان رضی
اللہ عنہ
کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے عرفہ کے دن روزہ
رکھا تو اس کے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں۔
بہتر یہ ہے کہ عاشورا کے روزے کے ساتھ
9محرم کا روزہ یا 11 محرم کاروزہ رکھنا چاہیے۔صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا۔(ابن
خزیمة، الصحيح، 3 : 290، رقم: 2095، بیروت: المکتب الاسلامی)عاشوراکاروز
ہ ر کھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ
روز ہ ر کھو۔
ہر ماہ تین روزے رکھنا یہ بھی سنت ہے۔
امیرِ اہلسنت دامت
برکاتہم العالیہ فیضانِ رمضان میں فرماتے ہیں:ہر اسلامی ماہ یعنی
سن ہجری کے مہینے میں کم از کم تین روزے ہر اسلائی بھائی اور اسلائی بہن کورکھ ہی
لینے چاہئیں۔ اس کے بے شمار دنیوی اور اخروی فوائد ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے ایام
بیض یعنی چاند کی 14،13 اور 15تاریخ کور کھے جائیں۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ أَوْصَانِى خَلِيلِى صلى الله عليه وسلم بِثَلاَثٍ صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ
شَهْرٍ ، وَرَكْعَتَىِ الضُّحَى ، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ(اخرجہ البخاری فی الصحيح، کتاب الصوم، باب صیام
ایام البیض ثلاث عشرة و أربع عشرة و خمس عشرة، 2 / 699، رقم :1880، ومسلم فی
الصحيح، کتاب صلاة المسافرین و قصرھا، باب استحباب صلاة الضحی و ان اقلہار کعتان و
اكملہا ثمان رکعات و او سطہا اربع رکعات اوست والحث على المحافظۃ عليہا، 1 / 499،
رقم : 721)
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میرے خلیل حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی: ہر
مہینے میں تین روزے رکھنا، چاشت کی دو رکعتیں ادا کرنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلٰى رَمَضَانَ، فَهٰذَا
صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهٖ۔ ( مسلم، الصحيح، کتاب الصیام، باب
استحباب صیام ثلاثۃ ایام
من كل شہر، 2 : 819، رقم: 1162)
ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا اور ایک
رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔
عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ أَرْبَعٌ لَمْ يَكُنْ يَدَعُهُنَّ النَّبِيُّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِيَامَ عَاشُورَاءَ وَالْعَشْرَ وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ
مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ(نسائی،دار
الكتب العلمیہ،رقم 2418) ام المومنین حضرت سید ہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
الله پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے:عاشورا کا روزہ،عشرۂ
ذی الحجہ کے روزے،ہر مہینے میں تین دن کے روزے اور فجر (کے فرض)
سے پہلے دو رکعتیں(یعنی دو سنتیں) ۔حدیثِ پاک
کے اس حصے عشرۂ ذی الحجہ کے روزے سے مراد ذُوالْحِجَّہ کے ابتدائی 9 دنوں کے روزے
ہیں ،ورنہ دس ذُوالْحِجَّہ کو روزہ رکھنا حرام ہے ۔ (ماخوذاز مراة
المناجیح ،ج۳ص۱۹۵)
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صِيَامُ الدَّهْرِ
وَأَيَّامُ الْبِيضِ صَبِيحَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ
۔(سنن
نسائی کی دارالکتب العلمیہ،رقم 2422) حضرت جریر بن عبد الله رضی اللہ
عنہ
سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :ہر مہینے تین روزے رکھنا (
ثواب کے لحاظ سے ) زمانے بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ اور ایامِ بیض (
چپکتی راتوں والے دن) تیرہ، چودہ اور پندرہ ہیں۔
عشرہ ذوالحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روز ہ ر کھنایہ
بھی مستحب اور نہایت اجر و ثواب کا کام ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا
مِنْ عَشْرِ ذِي الحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ،
وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ القَدْرِ(جامع
ترمذی دار الکتب العلمیہ،ر قم758) نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کے ابتدائی دس
دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ پاک کو زیادہ محبوب ہو،ان ایام میں سے ہر دن کا
روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃالقدر کے قیام کے
برابر ہے۔
شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے ۔احادیثِ مبارکہ میں
اس کی فضیلت واردہوئی ہے۔
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ
صِيَامُ الدَّهْر۔(جامع ترمذی دارالکتب العلمیہ الرقم
759)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے
پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی )روزے رکھے تو یہی
صوم الدهر ہے۔