دعوت اسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے  زیر اہتمام جولائی2021ءمیں یوکےمیں بذریعہ انٹر نیٹ غسل میت کی تربیت لینے والی اسلامی بہنوں کے ٹیسٹ کا سلسلہ رہا، جس میں برمنگھم (Birmingham)ریجن سے 1 آئرلینڈ(Ireland) ریجن سے 2 لندن (London) ریجن سے 7اسلامی بہنوں نے ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی۔

کامیاب ہونے والی اسلامی بہنوں نےنیت کی کہ وہ اللہ کی رضا کے لئے فی سبیل للہ میتوں کو غسل دیں گی۔


دعوتِ اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے زیرِ اہتمام  گزشتہ دنوں یوکے برمنگھم ریجن نارتھ برمنگھم میں”حُبِّ اہلِ بیت کورس“ کا اہتمام ہوا جس میں کم وبیش 27 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

اس کورس میں اہلِ بیت سے محبت رکھنے اور تعظیم کا انداز کیسا ہونا چاہیے، ان سے بغض کی وعیدیں، واقعۂ کربلا، محرم الحرام اور عاشورہ کی فضیلتیں نیز ان میں کی جانے والی عبادات بیان کی گئیں۔


شہید کی تعریف: شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی آلۂ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اوردنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو۔ شہید کا حکم یہ ہے کہ غسل نہ دیا جائے، ویسے ہی خون سمیت دفن کر دیا جائے۔ (بہار شریعت، 1/860ملخصاً)

کارخانۂ قدرت کی طرف سے ہمیں جو معلِّم باکمال بی بی آمنہ کے لعل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عطا کئے گئے ہیں وہ اپنے امتیوں کو طرح طرح کی فضیلتیں اور برکتیں پانے کے مواقع عطا فرماتے ہیں جن میں سے ایک موقع شہادت کا بھی ہے۔ چنانچہ شہادت کے فضائل پر کچھ روشنی ڈالی جاتی ہے:

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایسا کوئی نہیں جو جنّت میں داخل کیا جائے پھر وہ دنیا میں لوٹنا پسند کرے اگرچہ دنیا کی ہر چیز اسے ملے، سوائے شہید کے کہ وہ آرزو کرتا ہے کہ دنیا میں لوٹایا جائے اور پھر اسے دسبار شہید کیا جائے کیونکہ وہ شہید کی فضیلت دیکھ چکا ہے۔ (بخاری، 2/259، حدیث:2817)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ شہید تمنّا کرے گا کہ پھر مجھے دنیا میں بھیج کر شہادت کا موقع دیا جائے، جو مزہ راہِ خدا میں سر کٹانے میں آیا وہ کسی چیز میں نہ آیا۔(مراٰۃ المناجیح، 5/418)

(2)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کی بارگاہ میں شہید کے لئے چھ خصلتیں ہیں، خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کی بخشش ہو جاتی ہے۔ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ بڑی آنکھوں والی 72 حوریں ا س کے نکاح میں دی جائیں گی اور ا س کے ستر رشتہ داروں کے حق میں ا س کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (ترمذی، 3/250،حدیث:1669)

(3) عام مردوں کی روح ملک الموت قبض کرتے ہیں اور شہیدوں کی روح خود رب تعالیٰ براہِ راست قبض فرماتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،5/409)

(4) شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنّت میں سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان،7/115،حدیث:9686)

(5) اگر حضراتِ انبیاء نبی نہ ہوتے تو شہداء ان کے برابر ہو جاتے مگر چونکہ وہ حضرات نبی ہیں اس وجہ سے وہ ان شہیدوں سے اعلی و افضل ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح،5/463)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں سبز گنبد کے سائے میں شہادت کی موت عطا فرمائے۔اٰمین


اللہ عزوجل کی راہ میں شہید ہوجانا یہ جنت  میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک بہت اعلیٰ اور اطمینان بخش عمل صالح ہے، قرآ ن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہید وں کے لیے جنت الفردوس میں ہمیشہ کی زندگی کی خوش خبری دی ہے، شہادت کے فضائل میں کئی حدیثیں لکھی ہوئی ہیں، جن میں ایک حدیث اور اس کی کچھ تشریح ، کو بغور پڑھ ئے اور اپنے اندر جوش جہاد اور شہاد ت کا جذبہ پیدا کریں۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ کہ اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں سے بہت خوش ہوجاتا ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردیتاہے، پھر وونوں جنت میں داخل ہوجاتے ہیں ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالی قاتل کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور پھر وہ بھی شہید ہوجاتا ہے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کافر نے کسی مسلمان کو شہید کردیا تو شہید سے اللہ تعالیٰ خوش ہو کر اس کو جنت عطا فرمادے گا، پھر وہ کافر مسلمان ہوجائے گا اور وہ بھی کفار سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوجائے تو اس سے بھی اللہ تعالیٰ خوش ہو کراس کو جنت میں بھیج دے گا۔

اس طرح قاتل و مقتول دونوں جنت میں گئے اور دونوں سے خدا عزوجل خوش ہوگیا۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے درو سن کہاں


شہید کامل زندگی والے ہیں، شہید اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہیں، شہیدوں کو روزی ملتی ہے وہ دنیا اور دنیا دار وں کے انجام سے باخبر ہیں، شہدا کی تمام قوتیں اعلیٰ اور کامل ہیں، شہدا کی روحیں سبز پر ندوں کی شکل میں جنت میں سیر کرتیں ہیں، اور جو چاہیں کھاتی ہیں۔

(تفسیر نور العرفان ، صفحہ ۱۱۴۔ پارہ ۴)

شہید کے لغوی معنی : (۱) اللہ کی راہ میں مارا جانے والا ۔(۲) حاضر وباخبر جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو، اور گواہ ۔ (القاموس الوحید عربی اردو، صفحہ ۸۹۴)

اصطلاح فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ِ ظلم کسی آلہ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اور دنیا سے نفع نہ اٹھایاہو۔

(بہار شریعت ، حصہ چہارم ۴، شہید کا بیان ، صفحہ ۸۶۰۔ مکتبہ المدینہ مجلس مدینہ العلمیہ)

شہادت کے فضائل:

شہید کے بہت بڑے درجات ہیں شہید کو نبی سے قرب حاصل ہے ۔

۱۔ کہ انبیا کر ام علیہم الصلوة والسلام کی نیند وضو نہیں توڑتی اور شہید کی موت غسل نہیں توڑتی۔

2۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد وفات رزق ایسے ملتا ہے اور شہید کو بھی۔

3۔ نبی بعد وفات زندہ شہید بھی زندہ۔

4۔ شہید کا گوشت اور خون زمین نہیں کھاسکتی، نبی کا بھی نہیں کھاسکتی زمین کے لیے حرام ہے۔(تفسیر نعیمی جلد دوم ، آیت : ۱۵۴ ، سورة البقرہ ، صفحہ ۸۸)

ترجمہ : روایت ہے حضرت مقدم بن معدیکر ب سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ شہید کی اللہ کے ہاں چھ خصلتیں (درجے) ہیں۔۱۔ پہلی ہی دفعہ میں اسے بخش دیا جاتا ہے۔

۲۔اور اسے جنت کا ٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے۔

۳۔ اور اسے قبر کے عذاب سے امان دی جا تی ہے۔

۴۔ اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔

۵۔ اور اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک یاقوت دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بہتر ہوگا۔

۶۔اوربہتر(۷۲) حوروں سے اس کا نکاح کرایا جائے گا۔ (۷) اور اس کے ستر (۷۰) اہل قرابت میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

بعض غازی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شہید ہونے سے پہلے حضور علیہ الصلوة والسلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ جنت وہ ہے یارسول اللہ میں دیکھ رہا ہوں پھر شہید ہوئے ( مر اة المناجیح، جلد ۵، صفحہ ۵۰۶، حدیث ۳۳۳۴ نعیمی کتب خانہ )


شہداء کے فضائل کے بارے میں اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (البقرہ : 154)

اس آیت میں شہدا کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مر دہ سمجھنے کی اجازت ہے۔

احادیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہیں، حدیث شریف میں ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔

۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اہل جنت میں سے ایک شخض کولایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا، اے ابن آدم تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا ؟ وہ عرض کرے گا، اے میرے ر ب بہت اچھی منزل ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو مانگ اور کوئی تمنا کر، وہ عرض کرے گا، میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاوں( وہ یہ سوال اس لیے کرے گا) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہوگی۔(ّماخوذ، تفسیر صراط الجنان ، جلد۱، ص ۲۴۸)

اللہ پاک ہمیں اپنی راہ میں شہادت عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ مَتِین کے عطا کردہ وہ پاکیزہ اور مقدس اعمال کہ  جن کے سبب بارگاہِ الٰہی عزوجل سے عظیم بشارتوں ، اُخروی و دنیوی رفعتوں اور اجرِ کثیرہ سے نوازہ جاتا ہے ان میں شہادت کا بھی شمار ہے۔

شہید کسے کہتے ہیں؟ :

اصطلاحِ فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل ، بالغ اور طاہر کو کہتے جو بطور ظلم کسی آلۂ جارِحَہ (زخم لگانے والے ) سے قتل کیا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکۂ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو ۔

(بہارِ شریعت جلد 1 ، حصّہ 4 ، شہید کا بیان ، ص 860)

حکیمُ الْاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں لکھتے ہیں :شہید کو بارگاہِ الٰہی عزوجل سے بہت بلند درجات عطا کئے جاتے ہیں ۔شہید کو انبیاء کرام علیہم السلام سے بہت قُرب حاصل ہوتا ہے ۔شہید بعدِ وفات زندۂ و جاوید ہیں، شہید کو بعدِ وفات رزق دیا جاتا ہے ۔شہید سوالات قبر سے محفوظ رہتا ہے ، شہید کا جسم زمین نہیں کھا سکتی، شہید دنیا سے گناہوں سے ایسا پاک ہو کر جاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا، شہید موت سے پہلے جنت دیکھ لیتا ہے ، شہید 70 آدمیوں کی شفاعت کرے گا ، شہید کا عمل و رزق قیامت تک جاری رہے گا۔شہید قیامت کے دن گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا ۔(تفسیر نعیمی ، پ ج2 ، ص 83)قرآن کریم میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:فَرِحِیْنَ بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۙ- وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ  لَمْ  یَلْحَقُوْا  بِهِمْ  مِّنْ  خَلْفِهِمْۙ- اَلَّا  خَوْفٌ  عَلَیْهِمْ  وَ  لَا  هُمْ  یَحْزَنُوْنَۘ(۱۷۰)

ترجَمۂ کنزُالایمان:شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منارہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم ۔ ( آل عمران : 170)

یہاں شہدا ئے کرام کے لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم ، انعام و احسان ، اعزاز و اکرام اور موت کے بعد اعلی قسم کی زندگی دیے جانے پر خوش ہیں نیز اس پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا مقرب بنایا ، جنت کا رزق اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں اور جنت کی منزلیں حاصل کرنے کے لئے شہادت کی توفیق عطا فرمائی ۔

نیز وہ اس بات پر بھی خوشی منا رہے ہیں کہ ان کے بعد دنیا میں رہ جانے والے ان کے مسلمان بھائی دنیا میں ایمان اور تقویٰ پر قائم ہیں اور جب وہ بھی شہید ہو کر ان کے ساتھ ملیں گے تو وہ بھی ان کرم نوازیوں کو پائیں گے اور قیامت کے دن امن اور چین کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے۔(صراط الجنان جلد 2 ، پ 4، آل عمران ، ص 101)

حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے :تاجدارِ مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : اے ابن آدم ! تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسے پایا ۔وہ عرض کرے گا : اے میرے رب عزوجل بہت اچھی منزل ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو مانگ اور کوئی تمنا کر ۔وہ عرض کرے گا اے اللہ تعالیٰ میں تجھ سے صرف ایک سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں ۔وہ یہ سوال اس لئے کرے گا کیونکہ اس نے شہادت کی فضلیت ملاحظہ کر لی ہوگی ۔(الترغیب و الترہیب ، جلد 2 ، حدیث : 2108 )

شہادت کی اُخروی سعادت اور بلندی کا اندازہ پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اس کی تمنا فرمائی چنانچہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، جانِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں پھر شہید کیا جاؤں۔(کنزالعُمّال، حصہ 4 ، حدیث :10636 ، ص 549)

اللہ عزوجل ہمیں شہادت کے فضائل کو سمجھنے اور اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جنہوں نے جنم لیا اور بالآخر موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے کیا ان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا لیکن جنہوں نے دینِ اسلام کی بقا و سر بلندی کے لیے اپنی جان ،مال ، او ر اولاد کی فربانیاں دیں اور جن کے دلی جذبات اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت پختہ تھے، تاریخ کے اوراق پر انکے تذکرے سنہری حروف سے کندہ ہیں ۔ ان اکابرین کے کارناموں کا جب جب ذکر کیا جاتا ہے ، دلوں پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ان کی شہادت کے واقعات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، بالخصوص جب کبھی شہادتِ امام عالی مقام امام حسین اور آپ کے رفقاء نے جس شان کے ساتھ اسلام کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تاریخ اس کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے ان حضرات نے شہادت کا جام پینا تو گوارہ کیا مگر شوکتِ اسلام پر حرف نہ آنے دیا۔

شہید کی تعریف:

اصطلاحِ فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل ، بالغ اور طاہر کو کہتے جو بطور ظلم کسی آلۂ جارِحَہ (زخم لگانے والے آلے ) سے قتل کیا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکۂ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو ۔

(بہارِ شریعت ،جلد 1 ، حصّہ 4 ، شہید کا بیان ، ص 860)

شہادت کے فضائل:

شہادت کے بے شمار فضائل قرآن و حدیث میں آئے ہیں اور اس کا بہت زیادہ ثواب ہے ،شہید کی ارواح کو سبز پرندوں کے قالب عطا کئے جاتے ہیں، وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتےہیں ،جنتی میوے کھاتے ہیں، طلائی قنادیل جو زیر عرش معلّق ہیں ان میں رہتے ہیں ، شہید زندہ ہوتے ہیں، اور زندوں کی طرح کھاتے پیتے عیش کرتے ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرما تا ہے:

(1) شہید زندہ ہوتے ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے:

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ترجمہ کنز الایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (البقرہ : 154)

وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ   عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔ (البقرۃ : 169)

(3)شہید کی آرزو:

شہادت کی اُخروی سعادت اور بلندی کا اندازہ پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہےجس میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اس کی تمنا فرمائی چنانچہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابن ابی عمیرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکوئی مسلمان جان جسے اللہ تعالیٰ قبض فرمائے ایسی نہیں جو تمہاری طرف لوٹنا چاہے اگر چہ اس کے لئے دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں ہو جائیں سوائے شہید کے۔

ابن ابی عمیرہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرما یا مجھے اللہ کی راہ میں مارا جانا(شہید کیا جانا) اس سے زیادہ پیارا ہے کہ میری مِلک اون والے( دیہاتی) اور ڈھیلے والے (شہری) ہوں۔ (یعنی مقصد یہ ہے کہ تمام جہاں کی بادشاہت سے اللہ کی راہ میں شہید ہونا مجھے زیادہ پیارا ہے) (مراۃ المناجیح، الحدیث :3657، ج 5 ص 473 مطبوعہ قادری پبلشرز 2009ء)

(4) شہید کے لیےشہادت کا ثواب:

شہید کو کتنا ثواب ملتا ہے اس بارے میں حدیث مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہے جو کہ حضرت سیدنا مقدام بن مَعدِی رضی اللہُ عنہ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:" بیشک اللہ عزوجل شہید کو چھ انعام عطا فرماتاہے:(1) اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جنّت میں اسے اس کا ٹھکانا دکھا دیتا ہے۔

1۔ اسے عذاب ِ قبر سے محفوظ فرماتا ہے۔

2۔ قیامت کے دن اسے بڑی گھبراہت سے امن عطا فرمائے گا۔

3۔ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھے گا جس کا یاقوت دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہوگا۔

4۔ اس کا حوروں میں سے 72 حوروں کے ساتھ نکاح کرائے گا۔

5۔ اس کی 70 رشتہ داروں کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔

(مراۃ المناجیح، الحدیث:3657، ج 5، ص 458 مطبوعہ قادری پبلشرز 2009ء)

(5) تما م گناہوں کا کفّارہ:

حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ:" اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل(شہید) کیا جانا قرض کے علاوہ ہر گناہ کو مٹا دیتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ ، الحدیث 1886، ص1047، فضانِ چہل احادیث ص 84 مطبوعہ : مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی)

بیشک راہِ خدا میں شہید ہونا قرض کے سوا ہر گنا ہ کا کفارہ بن جاتا ہے امام جلال الدین سیوطی نے اشعۃ اللمعات ج3 ص357 پر بیان کیا کہ سمندر کے شہید اس سے مستثنیٰ ہیں کیوں کہ ان کی شہادت قرض کا بھی کفارہ بن جاتی ہے۔

(6) شہادت طلب کرنے کا ثواب:

حضرت سہل بن حنیف رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:" جوشخص اللہ سے سچے دل سے شہادت طلب کرے تو اللہ تعالی اسے شہید کا مرتبہ عطا فرما دیتا ہے اگر چہ اپنے بستر پر مرے۔

( سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد ،باب قتل القتال فی سبیل اللہ، الحدیث 2797،ج3ص359)


اصطلاح فقہ میں  شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی آلۂ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اوردنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو۔ شہادت صرف اسی کا نام نہیں  کہ جہاد میں  قتل کیا جائے بلکہ ایک حدیث میں  فرمایا: اس کے سوا سات شہادتیں  اور ہیں ۔  (۱)  جو طاعون سے مرا شہید ہے۔ (۲) جو ڈوب کر مرا شہید ہے۔ (۳) ذات الجنب میں مرا شہید ہے۔ (۴) جو پیٹ کی بیماری میں مرا شہید ہے۔ (۵) جو جل کر مرا شہید ہے۔ (۶) جس کے اوپر دیوار وغیرہ ڈہ پڑے اور مر جائے شہید ہے۔ (۷) عورت کہ بچہ پیدا ہونے یا کوآرے پن میں مر جائے شہید ہے۔‘‘ (بہار شریعت)

ان کے سوا اور بہت صورتیں ہیں جن میں شہادت کا ثواب ملتا ہے، امام جلال الدین سیوطی وغیرہ ائمہ نے ان کو ذکر کیا ہے، بعض یہ ہیں ۔ (۹) سِل کی بیماری میں مرا (۱۰) سواری سے گِر کر یا مر گی سے مرا (۱۱) بخار میں مرا (۱۲) مال یا (۱۳) جان یا (۱۴) اہل یا (۱۵) کسی حق کے بچانے میں قتل کیا گیا (۱۶) عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہو اور چھپایا ہو۔ (۱۷) کسی درندہ نے پھاڑ کھایا۔ (۱۸) بادشاہ نے ظلماً قید کیا یا (۱۹) مارا اور مر گیا (۲۰) کسی موذی جانور کے کاٹنے سے مرا (۲۱) علم دین کی طلب میں مرا (۲۲) مؤذن کہ طلب ثواب کے لیے اذان کہتا ہو (۲۳) تاجر راست گو (۲۴) جسے سمندر کے سفر میں متلی اور قے آئی (۲۵) جو اپنے بال بچوں کے لیے سعی کرے، ان میں امر الہی قائم کرے اور انہیں حلال کھلائے (۲۶) جو ہر روز پچیس بار یہ پڑھے اَللّٰھُمَّ بِارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ۔ (۲۷) جو چاشت کی نماز پڑھے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھے اور وتر کو سفر و حضر میں کہیں ترک نہ کرے۔ (۲۸) فسادِ اُمّت کے وقت سنت پر عمل کرنے والا، اس کے لیے سو شہید کا ثواب ہے۔ (بہار شریعت)

قران مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے : اور جو اللہ کی راہ میں  مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا۔ جلد اُنہیں  راہ دے گا اور اُن کا کام بنادے گا اور اُنہیں  جنت میں  لے جائے گا انہیں  اس کی پہچان کرادی ہے ۔ (سورہ محمد، آیت: 4 سے 6)

ایک اور جگہ پر فرمایا :جو اﷲ (عزوجل) کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں خبر نہیں ۔

اس کے علاوہ احادیث میں  بھی شہید کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں،یہاں  ان میں  سے دو احادیث ملاحظہ ہوں ۔

(1) حضرت مِقْدام بن مَعدیکَرِب رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  شہید کی چھ خصلتیں  ( یعنی درجے) ہیں،(1) پہلی ہی دفعہ میں  اسے بخش دیا جاتا ہے۔(2) اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے(3) اسے قبر کے عذاب سے امان دی جاتی ہے اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں  رہے گا۔(4) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یا قوت دنیا اور دنیا کی چیزوں  سے بہتر ہوگا۔ (5) 72حورِعِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا ۔(6) او راس کے 70 قریبی رشتہ داروں  کے بارے میں  اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

(2) حضرت قیس رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہےرسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: شہید کو چھ خصلتیں  عطا کی جاتی ہیں  (1)اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں ۔ (2)اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے۔ (3)حورِ عِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا۔(4،5) بڑی گھبراہٹ اور قبر کے عذاب سے امن میں  رہے گا۔ (6)اسے ایمان کا حُلّہ پہنایا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ اور دین کے لیے مر مٹنے کا جذبہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


شہادت ایک عظیم مرتبہ اور بہت بڑا مقام ہے۔قرآن و حدیث میں شہادت کے بہت سارے فضائل وارد ہوئے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

آیت مبارکہ :

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴) ترجمہ : اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ۔(سوره بقره ، ۱۵۴)

اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا نہ زبان سے مردہ کہنے کی اجازت ہے نہ دل میں۔

شہادت کے متعلق احادیث مبارکہ :

شہادت سے محبت:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ہے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔

(صحیح بخاری ،جلد 1، ص 392 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی 1381ھ)

سب سے پہلے جنت میں داخلہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ پر تین قسم کے لوگ پیش کئے گئے جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے شہید، پاک دامن اور وہ غلام جس نے اچھی طرح اللہ تعالی کی عبادت کی اور اپنے مالکوں کی خیرخواہی بھی کی۔

(جامع ترمذی ج 4،ص 176،الحدیث 1642،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

جنتی نعمتیں:حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان 115/7 الحدیث : 9686)

حکمی شہدا:حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے پوچھا تم لوگ کس چیز کو شہادت شمار کرتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ کی راہ قتل ہونے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل فی سبیل اللہ کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں طاعون میں مرنے والا شہید ہے، نمونیے میں مرنے والا شہید ہے ،پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے،جل کر مرنے والا شہید ہے،کسی چیز کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے،اور حاملہ درد زہ میں مبتلا ہو کر مر جائے تو شہید ہے۔(سنن داؤد، ج 2،ص 87)


اصطلاح فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں   جو بطورِ ظلم کسی آلہٕ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفسِ قتل سے مال نہ واجب ہو ا ہو اور دنیا سے نفع نہ اٹھا یا ہو ۔

( الدر المختار ،ج ٣ ، ص ١٨٧ - ١٨٩ )

شہادت کے بے شمار فضائل ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :

شہید زندہ ہوتا ہے :

اللہ فرماتا ہے : وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴) ترجمہ کنزالعرفان : اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ۔ ( پارہ ٢ ، سورہ بقرہ : ١٥٤ )

گناہ معاف :

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ” دَین کے علاوہ شہید کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے ۔

( صحیح مسلم ، الحدیث : ١٨٨٦ ، ص ١٠٤٦ )

شفاعت کا حق :

حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ شہید اپنے اہل ِ خانہ میں سے ستر لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ( سنن ابو داؤد ، الحدیث : ٢٥٢٢ ، ج ٣ ، ص ٢٣ )

خون پاک : شہید فقہی ( یعنی وہ جسے غسل نہیں دیا جاتا ) کا خون جب تک اس کے بدن سے جدا نہ ہو پاک ہے ۔ ( الفتاوی الھندیہ ، الفصل الثانی ، ج ١ ، ص٤٦ )

جنت کی سیر : روایت ہے مسروق رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ ہم نے عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کےمتعلق پوچھا کہ اللہ کی راہ میں مقتولوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور روزی دیے جاتے ہیں۔۔ الخ ۔ فرمایا : ہم نے اس کےمتعلق پوچھا تو فرمایا کہ روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں ان کے لیے عرش میں قندیلیں لٹک رہی ہیں جنت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ ( مراة المناجیح ، الحدیث : ٣٦٢٩ ، ج ٥ ، ص ٤٤٠ )

اللہ تعالٰی ہمیں بھی شہادت والی موت سے سرفراز فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


سب سے پہلے شہید کی تعریف ملاحظہ کیجئے        :

اصطلاحِ فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ مسلمان کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی آلہ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو ۔

شہادت کے قرآن و حدیث میں بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : "ترجمہ :جو اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں خبر نہیں ۔ (پ ، 2 البقرہ: 154)

اور فرماتا ہے : جو لوگ راہ خدا میں قتل کیے گئے انہیں مردہ نہ گمان کر ، بلکہ وہ اپنے رب کے یہاں زندہ ہیں انہیں روزی ملتی ہے ۔ اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں دیا اس پر خوش ہیں اور جو لوگ بعد والے ان سے ابھی نہ ملے ، ان کے لیے خوشخبری کے طالب کے ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ، اللہ تعالی کی نعمت اور فضل کی خوشخبری چاہتے ہیں اور یہ کہ ایمان والوں کا اجر اللہ تعالی ضائع نہیں فرماتا ۔ (پ 4 ، آل عمران: 169 تا 171)

اور حدیث پاک میں بھی اس کے فضائل بیان کئے گئے ہیں :

شہادت صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے بلکہ ایک حدیث پاک میں فرمایا : اس کے سِوا اور بھی شہادتیں ہیں ، مثلاً (1) جو طاعون میں مرا شہید ہے، (2) جو ڈوب کر مرا شہید ہے (3)جو جل کر مرا وہ شہید ہے (4)جس کے اوپر دیوار وغیرہ ڈہ پڑے اور مرجائے شہید ہے ۔

(سنن النسائی، کتاب الجنائز ، باب النھی عن البكاء على الميت ، الحديث : 1847 ص 2209 )

امام احمد کی روایت جابر رضی اللہُ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: طاعون سے بھاگنے والا اس کی مثل ہے ، جو جہاد سے بھاگا اور جو صبر کرے اس کے لیے شہید کا اجر ہے۔ (المسند للإمام احمد بن حنبل مسند جابر بن عبد اللہ، الحديث: 14881 ، ج5 ، ص 142)

احمد و نسائی عرباض بن ساریہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو طاعون میں مرے ، ان کے بارے میں اللہ تعالی کے دربار میں مقدمہ پیش ہوگا ، شہدا کہیں گے یہ ہمارے بھائی ہیں یہ ویسے ہی قتل کیے گئے جیسے ہم اور بِچھونوں پر وفات پانے والے کہیں گے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں یہ اپنے بِچھونوں پر مرے جیسے ہم اللہ تعالی فرمائے گا: ان کے زخم دیکھو اگر ان کے زخم مقتولین کے مشابہ ہوں ، تو یہ انہیں میں ہیں اور انہیں کے ساتھ ہیں "دیکھیں گے تو ان کے زخم شہدا کے زخم سے مشابہ ہوں گے ، شہدا میں شامل کر دیے جائیں گے ۔

(المسند للا مام احمد بن حنبل ، حديث العرباض بن ساریۃ ، الحديث: 17159 ، ج6 ، ص 86، ماخوذ بہار شریعت ج1 ، حصہ4 ص 857 ، 858 اور 860)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی شہادت کا رتبہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم