امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی 5 خصوصیات ازبنت عمر دین( جامعۃ المدینہ فیضان
اصحاب صفہ کراچی)

امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت و القابات:
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ابو عبداللہ اور
القابات سبط رسول، ریحانة الرسول، راکب دوش مصطفی ﷺ، جگر گوشہ مرتضی، دل بند
فاطمہ، امام ہمام اور امام تشنہ کام ہے
امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل:
پہلی خصوصیت: امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنھما کو
پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے پھول قرار دیا چناچہ ارشاد فرمایا کہ حسن
و حسین (رضی اللہ عنھما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں (بخاری،ج2،ص547،حدیث3753)از
امام حسین کی کرامات
دوسری خصوصیت: حضور پر نور ﷺ نے امام عالی مقام امام حسین
رضی اللہ عنہ سے ایک بار اظہار محبت کچھ ان الفاظ میں فرمایا کہ حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ
تعالی عنہ سے ہوں اللہ عزوجل دوست رکھے اسے جو حسین رضی اللہ عنہ کو دوست رکھے
،حسین رضی اللہ تعالی عنہ سبط ہے اسباط سے (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب المناقب
ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث3800،ج5،ص429)از آئینہ قیامت
تیسری خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ سے انوار کا ظہور ہوتا اور
کیوں نہ ہو کہ آپ رضی اللہ عنہ حضور پُرنور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے
ہیں چناچہ حضرت علامہ جامی قدس سرہ فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین رضی
اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں
تشریف فرما ہوتے تو آپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں رخسار ( یعنی گال)
سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی اطراف روشن) ہوجاتے (شواہد
النبوہ،ص228)از امام حسین کی کرامات
چوتھی خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ کی ایک خصوصیت اور ولادت با
سعادت با کرامت بیان کرتے ہوۓ حضرت عارف باللہ
نور الدین عبد الرحمن جامی قدس سرہ السامی شواھد النبوة میں فرماتے ہیں :منقول ہے
کہ امام پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی مدت حمل چھ ماہ ہے . حضرت سیدنا یحیی علی نبینا
وعلیہ الصلوة والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ
کوئی بچہ زندہ نہ رہا جسکی مدت حمل چھ ماہ ہوئی ہو (شواہد النبوہ،ص228)از امام
حسین کی کرامات
واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم
پانچویں خصوصیت: آپ رضی اللہ عنہ کا ایک معجزہ ملاحظہ ہو
نیز مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے چناچہ ملاحظہ
ہو امامِ عالی مقام ، امامِ عرش
مقام، امامِ ہمام، امامِ تشنہ کام، حضرتِ سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہ یومِ عاشورا یعنی بروز جمعۃُ المبارک10مُحَرَّمُ الْحَرام 61ھ کو
یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت (یعنی اپنی دلیل مکمَّل ) کرنے کیلئے جس وَقت میدانِ
کربلا میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وَقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے
مظلوم قافِلے کے خیموں کی حِفاظت کیلئے خندق میں روشن کردہ آگ کی طرف دیکھ کر ایک
بد زَبان یزیدی (مالک بن عُروہ ) اس طرح
بکواس کرنے لگا: ’’اے حُسین ! تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی!’‘ حضرتِ
سیِّدُنا امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: کَذَبْتَ
یاعَدُوَّ اللّٰہ یعنی’’ اے دشمنِ خدا!تو جھوٹا ہے، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ (مَعَاذَ اللہ ) میں
دوزخ میں جاؤں گا!’‘ اِمامِ عالی مقام
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قافِلے کے ایک جاں نثار حضرتِ سیِّدُنا )مسلم بن عَوْسَجَہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)نے حضرتِ امامِ
عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے اُس منہ پھٹ بد لگام کے منہ پر تیر
مارنے کی اجازت طلب کی۔ حضرتِ امامِ عالی
مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری
طرف سے حَملے کا آغاز نہیں ہو نا چاہئے ۔ پھر امامِ تشنہ کام (یعنی پیاسے امام ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دستِ دُعا بُلند کر کے عرض کی:’’اے ربِّ
قہّار!اس نا بکار (نا۔ بَہ۔ کار یعنی شریر
)کوعذابِ نار سے قبل بھی اِس دنیائے نا پائیدار میں آگ کے عذاب میں مبتَلا فرما۔
‘‘ فوراًدُعا مُستجاب (یعنی قبول ) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاؤں
زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ یزیدی
گھوڑے سے گرا ، اُس کا پاؤں رِکاب میں اُلجھا
، گھوڑا اُسے گھسیٹتا ہوا دوڑا اور آگ کی
خندق میں ڈا ل دیا! اور بدنصیب آگ میں جل کربَھسَم ہو گیا۔ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے سجدہ ٔ شکر ادا
کیا، حمدِ اِلٰہی بجا لائے اور عرض کی:
’’یااللہ کریم! تیرا شکر ہے کہ تُو نے
اٰلِ رسول کے گستاخ کو سزا دی۔ ‘‘ (سَوانِحِ کربلا ص۱۳۸ملخّصاً )از امام حسین کی
کرامات
اس سے بزرگانِ دین کی شان عالی مرتبت میں گستاخیاں کرنے
والوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے
اللہ عزوجل ہمیں ہمیشہ صحابہ کرام اور اہلبیت عظام اور
بزرگان دین کا ادب کرنے والا بناۓ اور ان کی شان عالی میں گستاخیاں کرنے والوں کے شر سے
محفوظ رکھے
اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں
لَعْنَۃُ
اللّٰہِ عَلَیْکُمْ دشمنانِ اہلِ بیت
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی 5 خصوصیات ازبنت محمد عدنان عطاری( فیضان عالم شاہ
کراچی)

آپ رضی اللہ عنہ کا نام "حسین"، کنیت ابو عبداللہ اور القاب سبطِ رسول اللہ اور
ریجانۃ الرسول (یعنی رسول کے پھول) ہیں۔
کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
فضائلِ امام حسین
رضی اللہ عنہ:
1۔ترمذی، جلد
5، صفحہ 429، حدیث380 میں ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسین
رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے، جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔"
2۔المستدرک، جلد 4، صفحہ 156، حدیث 383 میں ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن
و حسین رضی اللہ عنہم سے جس نے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔"
3۔بخاری شریف، جلد
2، صفحہ 547، حدیث 3753 میں ہے، فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم::حسن و حسین
رضی اللہ عنہم دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔"
4۔ترمذی شریف، جلد
5، صفحہ 426، حدیث 3792 میں ہے، فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:" حسن و
حسین رضی اللہ عنہم جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔"
5۔امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی ظاہری وصال فرما جانے کے بعد
بھی اپنی قبر پر آنے والوں کو سلام کا جواب دیتے ہیں، چنانچہ روایت ہے، نورُ الابصار، صفحہ 149 سے اختصاراً پیشِ خدمت
ہے:"حضرت سیدنا شیخ ابو الحسن علیہ رحمۃ
اللہ الوالی سرِ انور کی زیارت کے لئے جب مشہد مبارک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے"السلام
علیکم" اور اس کا جواب سنتے "وعلیکم السلام یا اباالحسن"۔
دعا:اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صدقے یہ دنیا سے کرونا وائرس
کا خاتمہ ہوجائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی 5 خصوصیات ازبنت محمد صادق (جامعہ بہار عطار
کراچی)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"اس شخص کی ناک
خاک آلود ہو، جس کے پاس میرا ذکر ہو اور
وہ مجھ پر درود پاک نہ پڑھے۔"
آپ رضی اللہ عنہ کا مبارک نام"حسین" کنیت ابو عبداللہ اور القاب"سِبْطِ رسُولُ
اللہ اور ریْحانۃُ الرَّسُول (یعنی رسول
کے پھول ہیں)، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے
سال، 5 شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں
ہوئی، آپ علیہ السلام نے آپ رضی اللہ عنہ
کا نام حسین اور شبیر رکھا، آپ کے بارے
میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، جن میں
سے چار درج ذیل ہیں:
1۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ
سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا
ہے، جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔
2۔حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی
کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی، حسن وحسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو
پھول ہیں، حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی
جوانوں کے سردار ہیں۔
3۔امام حسین رضی اللہ عنہ کے سیدھے کان میں اذان دی آقا
علیہ الصلاۃ والسلام نے اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک جُوٹھے شریف
سے گھٹی عطا فرمائی اور دعاؤں سے نوازا۔ 4۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شکل
مبارک سر سے سینہ تک حضور علیہ السلام سے مشابہ تھی اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی
سینے سے ناخنِ پا(یعنی پاؤں کے ناخن) تک۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاک و بلند بارگاہ میں دعا ہے کہ اس
بیان کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین
یا ربّ العالمین

1۔ولادت باکرامت:امام حسین رضی اللہ عنہ سراپا کرامت تھے،
حتٰی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت
بھی باکرامت ہے، سیّدنا امام حسین رضی
اللہ عنہ کی ولادت باسعادت شعبان المعظم 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضرت سیّدنا عارف باللہ نورالدین عبدالرحمن
جامی قدس سرہ السامی "شواھدالنبوہ" میں فرماتے ہیں، منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ
ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ
الصلاۃ والسلام اور امام حسین رضی اللہ
عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔
مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں
سیّدہ فاطمہ کے
لختِ جگر آئے ہیں
واہ قسمت! کہ چراغِ حرمین آئے ہیں
اے مسلمانو مبارک کہ حسین آئے ہیں
2۔امام حسین کے فضائل پرچار فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم:
حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے
ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔
حسن و حسین رضی
اللہ عنہ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے
محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے
مجھ سے دشمنی کی۔
حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
حسن و حسین رضی
اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول
ہیں۔(امام حسین کی کرامات، ص3)
3۔رُخسار سے انوار کا اظہار:
حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی
اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے
اور قُرب و جوار ضیابار ہو جاتے۔
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
4۔کنویں کا پانی اُبل پڑا:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ
کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیّدنا ابن مطیع رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات
ہوئی، انہوں نے عرض کی: میرے کنویں
میں پانی بہت کم ہے ، براہِ کرم! دعائے
برکت سے نواز دیجئے، آپ رضی اللہ عنہ نے
اس کنویں کا پانی طلب فرمایا، جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ
عنہ نے مُنہ لگا کر اس میں سے پانی نوش کیا(یعنی پیا) اور کُلّی کی، پھر ڈول کو
واپس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا۔
باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت
تم کو مثردہ نار کا اے دُشمنانِ اہلِ بیت
5۔سونے کے سِکّوں کی تھیلیاں:
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے
اپنی تنگدستی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:"تھوڑی دیر بیٹھ
جاؤ، ابھی کُچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت
سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دینار(یعنی سونے کے سکّے) کی پانچ تھیلیاں
آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کی گئیں، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کر دی اور اس کرم نوازی کے
باوجود تاخیر پر معذرت فرمائی۔
یا شہیدِ کربلا فریاد ہے
نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے
ہے میری حاجت میں طیبہ میں مروں
اے میرے حاجت روا فریاد ہے

درود پاک کی فضیلت:
بے چین دلوں کے چین، رحمتِ دارین، تاجدارِ حرمین، سرورِ
کونین، نانائے حسین صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہما کا فرمانِ رحمت شان ہے:جب جمعرات کا دن آتا ہے، اللہ تعالی
فرشتوں کو بھیجتا ہے، جن کے پاس چاندی کے
کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ
مُجھ پر درود پڑھتا ہے۔
ولادتِ با کرامت:
راکب دوش مصطفی، جگر گوشہ مرتضی، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ
کربلا، سید الشہدا، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام، حضرت
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سراپا کرامت تھے، حتٰی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی باکرامت
ہے، حضرت سیّدی عارف باللہ نورالدّین عبدالرحمن جامی قدس سرہ السامی
"شواھدالنبوہ" میں فرماتے ہیں، سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت
باسعادت 4 شعبان المعظم، 4 ہجری کو مدینہ
منورہ میں منگل کے دن ہوئی، منقول ہے کہ
امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے
علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔
مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں
سیّدہ فاطمہ کے لختِ جگر آئے ہیں
واہ قسمت! کہ چراغِ حرمین آئے ہیں
اے مسلمانو مبارک کہ حسین آئے ہیں
رُخسار سے انوار کا اظہار:
حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں:حضرت امام
عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما
ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے اور قُرب و جوار ضیابار ہو جاتے(یعنی روشن ہو جاتے)۔
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
حسین کے 4 حروف کی نسبت سے امام حسین کے فضائل پرچار فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ
سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔
2۔حسن و حسین رضی
اللہ عنہ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے
محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے
مجھ سے دشمنی کی۔
3۔حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
4۔حسن و حسین رضی
اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
کنویں کا پانی اُبل پڑا:
حضرت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو
راستے میں حضرت سیّدنا ابن مطیع رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے عرض کی: میرے کنویں میں پانی بہت کم ہے ، براہِ کرم! دعائے برکت سے نواز دیجئے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس
کنویں کا پانی طلب فرمایا، جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ
عنہ نے مُنہ لگا کر اس میں سے پانی نوش کیا(یعنی پیا) اور کُلّی کی، پھر ڈول کو
واپس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو
گیا۔
باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت
تم کو مثردہ نار کا اے دُشمنانِ اہلِ بیت
سونے کے سِکّوں کی تھیلیاں:
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے
اپنی تنگدستی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:"تھوڑی دیر بیٹھ
جاؤ، ابھی کُچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت
سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دیناریعنی سونے کے سکّوں کی پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں
پیش کی گئیں، حضرت سیّدنا امام حسین رضی
اللہ عنہ نے وہ ساری رقم اس غریب آدمی کے
حوالے کر دی اور اس کرم نوازی کے باوجود تاخیر پر معذرت فرمائی۔
یا شہیدِ کربلا فریاد ہے
نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے
ہے میری حاجت میں طیبہ میں مروں
اے میرے حاجت روا فریاد ہے
خولی بن یزید کا درد ناک انجام:
دنیا کی محبت اور مال و زر کی ہوس انسان کو اندھا اور انجام
سے بے خبر کر دیتی ہے، بدبخت خولی بن یزید
نے دنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرِ انور تن سے جدا کیا تھا، مگر چند ہی برس کے بعد اس دنیا میں ہی اس کا
ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے، چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلینِ امام حسین کے خلاف جو
انتقامی کاروائی کی، اسی ضمن میں صدر
الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو
شخص لشکرِ یزید کے سپہ سالار عمرو بن سعد کا شریک تھا، وہ جہاں پایا جائے، مار ڈالا جائے، یہ حکم سن کر کوفہ کے جفاشعار سُورما بصرہ بھاگنا شروع ہوئے، مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا، جس کو جہاں پایا، ختم کر دیا، لاشیں جلا ڈالیں، گھر لُوٹ
لئے، خولی بن یزید وہ خبیث ہے، جس نے حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تنِ
اقدس سے جُدا کیا تھا، یہ رُو سیاہ بھی گرفتار کرکے مختار کے پاس لایا
گیا، مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے، پھر سُولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا، اس طرح لشکر
ابنِ سعد کے تمام اشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا، چھ ہزار کوفی جو
حضرت امام عالی مقام کے قتل میں شریک تھے، ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے
ساتھ ہلاک کر دیا۔
اے تشنگانِ خون جوانانِ اہل بیت دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
کتوں کی طرح تمہاری لاشیں سڑاکئے گھوڑے پہ بھی
رکھ گور کو تمہاری جا ملی
رُسوائے خلق ہوگئے برباد ہوگئے مردودو تم
کو ذلتِِ ہر دو سرا ملی
تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرہ کا بوستاں تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دعا ملی
دنیا پرستو! دین سے مُنہ موڑ کر تمہیں دنیا
ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی
آخر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے سر کٹ گئے اماں
نہ تمہیں اک ذرا ملی
پائی ہے کیا نعیم انہوں نے ابھی سزا دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دم سزا ملی

شاہ ہست حسین بادشاہ ہست حسین دیں ہست حسین دیں
پناہ ہست حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے
لا الہ ہست حسین
)خواجہ اجمیری (
نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ بتول ، امام عالی مقام ، نوجوانانِ جنت کے سردار، کربلا کے قافلہ
سالار، حق و صداقت کے علم بردار، سبطِ رسول ، شیر خدا حضرت علی کرم اللہ
تعالی وجہہ الکریم کے نور نظر ، سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراءکے
لخت جگر ، حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ
تعالی عنہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔امام حسین کا نام پاک حسین اور کنیت ابو عبداللہ ہے
اور لقب ذکی ، شہید اکبر، طیب، سبط ہیں۔امام حسین پیارے آقاصلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے چھوٹے نواسے تھے۔ ان کے بارے میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ حُسَيْن
مِنِّي وَأَنَا مِنْ الحُسَيْن أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا یعنی 'حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے
محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے گا۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا۔"حسن اور حسین نوجوانان اہل بہشت کے سردار ہیں"
(اَلْبِدایَة و النَّهایَة،فَضائِلُ الصَّحابَة، تاریخ
دمشق)
جب تک دنیا قائم رہے گی امام حسین کا نام زندہ رہے گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ
نواسہ رسول ہے ، اس لئے نہیں کہ وہ جگر گوشہ بتول ہےاور اس لئے نہیں کہ وہ نور
نگاہ علی ہے۔ یہ تمام سعادتیں بھی بڑی سعادتیں ہیں لیکن امام حسین کا نام اس لئے
بھی زندہ رہے گا کہ آپ بے شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ آپ بہت جرات مند اور بہادر تھے
۔امام عالی مقام سیدنا امام حسین بے حد
فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت،
مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپ کی
خصوصیات حسنہ تھیں۔عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپ کے
کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے پاپیادہ کیے۔ آپ نہایت
ایماندار ، نیک سیرت ، اعلی اخلاق کے حامل تھے ۔ دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور واقعہ
کربلا میں شہید ہوئے۔
آپ نہ صرف صورت بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کے
شبیہ تھے۔ آپ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ
ہوجاتی ہیں۔ سیدنا امام حسین نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ
نبوی میں پرورش پائی، اسی لئے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ علم کا باب تو آپ کے گھر
میں کھلتا تھا اور تقویٰ کی سیدنا امام حسین کو گھٹی ملی تھی، اسی لئے فطری طور پر
آپ اپنے دور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔سبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت امام حسین دینی علوم کے علاوہ عرب
کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔یوں تو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بے
شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ آئیے چند خصوصیات کا اجمالی تذکرہ پڑھتے ہیں۔
1۔ حضرت امام حسین
عبادت گذار تھے:- امام حسین ایسے عابد تھے کہ انتہائی مظلومی و بے کسی کے عالم میں
بھی شب عاشورہ کی ساری رات اپنے خیمے میں عبادت الہی میں گذاری اور ایسے عابد کہ
جوان بیٹے کی لاش پر گھوڑے دوڑتے دیکھ کر، مظلوم اصغر کے حلق پر تیر پیوست ہوتا دیکھ
کر ، عباس کے بازو قلم ہوتے دیکھ کر ، عون و محمد کی لاش تڑپتی دیکھ کراور پھر
اپنے جسم پاک پر سینکڑوں زخم کھانے کے بعد بھی میدان کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر تہ
خنجر بھی نماز ادا کر گئے۔
2۔ امام حسین بہت بہادر تھے :- حضرت امام حسین ایسے بہادر
تھے کہ بے سرو سامان ہونے اور تین دن کے بھوکے پیاسے ہونے کے باوجود بھی بیس ہزار
دشمنوں کے مقابلے میں صبح سے لے کر ظہر تک ڈٹے رہے اور ایسے بہادر کہ جن پر تیروں
کا مینہ برسا، نیزوں کی بارش ہوئی،
برچھیوں کے بادل چھائے اور تلواروں کے طوفان اٹھے مگر آپ کے پاؤں میں ذرہ بھر بھی
لغزش نہ آئی اور آخری دم تک ثابت قدم رہے۔
3۔ امام حسین نہایت سخی تھے:-
امام حسین ایسے سخی تھے کہ دشت کربلا میں اللہ کی راہ میں
اپنے جوان بیٹے اکبر کو قربان کیا، اپنے مظلوم بچے اصغر کو اپنی جھولی میں دم
توڑتے دیکھا، اپنے بھائی کی امانت قاسم کے سر کو پائیمال کروایا ، اپنی بہن کے جگر
گوشے عون و محمد کی لاشوں کو خون میں تڑپتے دیکھا۔ اپنے
بھائی عباس کے بازو قلم کروائے اور پھر سب سے آخر میں اپنی جان بھی سخاوت کردی۔
4۔ امام حسین پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے
تھے:-
جگرگوشۂ بتول، سیدنا حضرت امام حسین فضائل و مناقب اور
سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدد احادیثِ مبارکہ آپ کی فضیلت پر
دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہِ رسالتﷺ میں حضرات حسنین کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے
کہ اکثر نبی مہربانﷺ آپ دونوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپ کے ساتھ
محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا:
٭… ’’حسن اور حسین، یہ میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں،
اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور جو ان سے محبت
کرے تو بھی ان سے محبت فرما‘‘۔ (ترمذی۔ مشکوٰۃ)
ایک موقع پر خاتم النبیینﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حسن و حسین
سے محبت کی،اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ
دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔ (البدایۃ و النہایۃ ج8 ص208)
5۔ فصاحت و بلاغت:
امام حسین علیہ السلام ایک بہترین سخنور تھے۔ آپ ایسے گھر
میں پروان چڑھے کہ جہاں الٰہی فرشتے کلام خدا لے کر نازل ہوتے تھے۔ جب آپ نے
انکھیں کھولیں تو سب سے پہلے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک
سے اذان و اقامت کی صورت میں کلام وحی کو سنا۔ آپ کی معلم اور مربی آپ کی والدہ
گرامی سیدہ کونین دختر رسول جناب حضرت فاطمہ زہرا تھیں اور استاد آپ کے والد
بزرگوار علی مرتضیٰ تھے کہ جن کا خطابت کے میدان میں عرب و عجم میں کوئی ماں کا
لال مقابلہ نہ کر پایا۔
6۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شباہت:-
حضرت امام حسین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے سب سے زیادہ شباہت رکھتے تھے۔
اصحاب نے اس بات کا ذکر امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت کے سلسلے میں متعدد
مرتبہ کیا ہے۔ خاص طور سے آپ کی قامت رسول اسلام سے بہت زیادہ مشابھت رکھتی تھی
اور جو بھی آپ کو دیکھتا اسے رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی 5 خصوصیات ازبنت رضوان احمد قطب مدینہ ملیر
کراچی

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے نواسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں سے ہیں، قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ
یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ۚ
ترجمہ
کنزالعرفان:"اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے
ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب صاف ستھرا کردے۔(پارہ22، الاحزاب، آیت33)
اکثر مفسرین کی
رائے یہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی المرتضی، حضرت سیّدۃ النساء فاطمۃ الزہراء، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل
ہوئی۔(سوانح کربلا، ص 79)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شہزادے پر آپ رضی
اللہ عنہ کو ترجیح دی، جیسا کہ مروی ہے کہ ایک روز حضور پُرنور صلی اللہ علیہ
وسلم کے دہنے زانو پر امام حسین رضی اللہ
عنہ اور بائیں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ
بیٹھے تھے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے
حاضر ہو کر عرض کی کہ"ان دونوں کو خدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ
رکھے گا، ایک کو اختیار فرما
لیجئے"، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
امام حسین رضی اللہ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی، تین دن کے بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا
انتقال ہو گیا، اس واقعے کے بعد جب حاضر
ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوسے لیتے اور فرماتے"مرحبا بمن فدیتہ
بابنی"(ایسے کو مرحبا جس پر میں نے اپنا بیٹا قربان کیا)۔(آئینہ قیامت، ص13،
14)
آپ رضی اللہ عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں، چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث مبارکہ میں ہے، حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔"(سوانح کربلا، ص 94)
جنتی جوانوں کا سردار فرمانے سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ راہِ
خدا عزوجل میں اپنی جوانی میں راہی جنت ہوئے، حضرت امامینِ کریمین ان کے سردار
ہیں۔(سوانح کربلا، ص 103)
حضوراقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہ
کے ساتھ کمال رافت و محبت تھی، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد
فرمایا:"وہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔"(سوانح کربلا، ص 104)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں نونہالوں کو پھول کی
طرف سونگھتے اور سینہ مبارک سے لپٹاتے۔(سوانح کربلا، ص 104)
ایک حدیث شریف میں ارشاد ہوا:"جس نے ان دونوں(حضرت
امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما)سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی، اس نے مجھ سے عداوت کی۔"(سوانح
کربلا، ص 103)
نیز فرمایا:"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں،
اللہ دوست رکھے اُسے جو حسین کو دوست
رکھے، حسین سبط ہے اسباط سے۔"( آئینہ
قیامت، ص 13)
آپ رضی اللہ عنہ نے راہِ حق میں پہنچنے والی تکالیف پر صبر
کیا، یہاں تک کہ جامِ شہادت نوش فرمایا، لیکن باطل کے آگے سر نہ جھکایا۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اِسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی 5 خصوصیات ازبنت منصور فیضان غزالی کراچی

سلطانِ کربلا، سیّد
الشّہداء، امام عالی مقام، امام عرش مقام، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک
نام حسین، کنیت ابو عبد اللہ، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال 5 شعبان المعظم
کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضور پُر نور
صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا
فرمایا، امام حسین رضی اللہ عنہ کی
خصوصیات آپ کے القابات سے بھی خوب ظاہر ہوتی ہیں، خاص طور پر سبطِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ریحانۃ الرسول ان کے بہت ہی
پیارے القابات میں سے خاص القاب ہیں۔(فضائل امام حسین، ص1ملخصاً)
ان کی خصوصیات کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
بہت سے فرامین احادیث کی بہت سی مقدس
کتابوں میں ملتے ہیں، خصوصیات کی نشاندہی
کے ساتھ پانچ فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔جنتی جوانوں کے سردار:
"حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار
ہیں"(ترمذی، جلد 5، صفحہ 426) مفتی
احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ جوانی میں وفات پائیں اور جنتی
ہوں، حضراتِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما
ان کے سردار ہیں، ورنہ جنت میں تو سبھی
جوان ہوں گے۔(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 475)
2۔ ریحانۃ الرسول:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین دنیا میں
میرے دو پھول ہیں"(بخاری، جلد
2، صفحہ 3753) مفتی احمد یار خان علیہ الرحمۃ
الرحمن نے اس فرمان کے تحت فرمایا کہ حسن و حسین دنیا میں جنت کے دو پھول ہیں تو
مجھے(حضور صلی اللہ علیہ وسلم)کو عطا ہوئے، ان کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی
ہے۔(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 475)
3۔سبطِ رسول:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا"
کہ حسین اسباط میں سے ایک سبط ہے۔"
( ترمذی، جلد
5، صفحہ 469 )
مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمن اس حدیث کے تحت فرمایا
کہ سبط وہ درخت ہے، جس کی جڑ ایک ہو اور
شاخیں بہت سی، ایسے ہی میرے حسین سے میری
نسل چلے گی اور اس فرمانِ عالی کا ظہور یوں ہوا کہ حسنی سیّد کم اور حسینی سیّد
بہت زیادہ ہیں۔(فضائل امام حسین، ص3)
4۔ان کا دوست حضور کا دوست:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے حسن و حسین
سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس
نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے
دشمنی۔"(المستدرک، جلد 4، ص 156،ح 4835)
5۔عرش کی تلوار:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ
دونوں(حسنینِ کریمین) عرش کی دو تلواریں ہیں۔"(آئینہ قیامت، ص 4)
آخریہ ذات خصوصیات والی کیوں نہ ہو، آخر ان کو حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے
نسبتِ خاص حاصل تھی۔اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں امام حسین کی محبت عطا فرمائے۔آمین یا
ربّ العٰلمین
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی 5 خصوصیات ازبنت فاروق فیضان عالم شاہ بخاری
کراچی

سلطانِ کربلا، امام
عالی مقام، حضرت سیّدنا امام حسین رضی
اللہ عنہ کا مبارک نام"حسین" کنیت ابو عبداللہ اور القاب"سِبْطِ رسُولُ اللہ اور ریْحانۃُ الرَّسُول (یعنی رسول کے پھول ہیں)، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا
نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 25،26 متقظاً، دارالکتب العلمیہ بیروت)
آپ رضی اللہ عنہ کے تو کیا کہنے!آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے نواسے ہیں، آپ کے سیدھے کان میں آخری
نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے اذان دی اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک
جھوٹے شریف سے گھٹی عطا فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 24،25 ملخصاً)
1۔منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ
ہے، حضرت یحییٰ علیہ السلام اور امام حسین
رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدتِ حمل چھ ماہ ہوئی ہو ۔(شواہد
النبوۃ، صفحہ 228، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)
2۔شبیہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:حسن بن علی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ
کے بارے میں بھی فرمایا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب سے زیادہ
مشابہت رکھتے تھے۔(رواہ البخاری، 3792،3748)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے
کر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں، جبکہ حسین رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
سے اس سے نچلے حصّے سے (سینے سے ناخن پاؤں تک) مشابہت رکھتے تھے۔ (ترمذی، جلد 5، صفحہ 430، حدیث 3804)
ایک سینے تک مشابہہ اک وہاں سے پاؤں تک
صاف شکل پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
3۔سبطِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسین مجھ سے ہے اور
میں حسین سے ہوں، اللہ تعالی اس سے محبت
فرماتا ہے، جو حسین سے محبت کرے، حسین اسباط میں سے ایک "سبط" ہیں۔(تر مذی، جلد 5، صفحہ 429، حدیث3800)
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں اور
حسین گویا ایک ہیں، ہم دونوں سے محبت ہر
مسلمان کو چاہئے، مجھ سے محبت حسین سے
محبت اور حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے، چونکہ آئندہ واقعات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظر تھے، اس لئےاس قسم کی باتیں اُمّت کو سمجھائیں اور" سبط" وہ درخت ہے، جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت، ایسے ہی میرے حسین سے میری نسل چلے گی اور ان
کی اولاد سے مشرق و مغرب بھر جائے گی، دیکھ لو!آج ساداتِ کرام مشرق و مغرب میں ہیں اور یہ بھی دیکھ لو کہ حسنی
سیّد تھوڑے ہیں اور حسینی سیّد بہت زیادہ
ہیں، اس فرمانِ عالی کا ظہور ہے۔(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 480، ضیاء القرآن پبلی
کیشنر لاہور)
4۔جنتی جوانوں کے سردار:
آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین
رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔"(ترمذی، جلد 5، صفحہ 426، حدیث 3793)
ایک اور جگہ
فرمایا:"جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے(ایک روایت میں ہے)جنتی
جوانوں کے سردار کو دیکھے، وہ"حسین
بن علی" کو دیکھے۔( اشرف المؤبد لآلِ محمد للنبہانی،صفحہ 49)
5۔ریحانۃ الرسول:
نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول
ہیں۔"(بخاری، جلد 2، صفحہ 547، حدیث3753)
اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن وحسین دنیا میں جنت کے پھول ہیں، جو مجھے عطا ہوئے، ان کے جسم سے
جنت کی خوشبو آتی ہے، اس لئے حضور انہیں سونگھا کرتے تھے اور حضرت علی سے فرماتے
تھے:"اے دو پھولوں کے ابُّو! تم پر سلام ہو۔"(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 462)

۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین سے محبت
کرے، حسین اَسباط میں سے ایک "سِبط" ہے۔
2۔حسن و حسین رضی اللہ عنہ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
3۔جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے، (ایک روایت میں
ہے) جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے، وہ
"حسین ابنِ علی" کو دیکھے۔
4۔حسن میرے ہیں اور حسین علی کے۔
5۔حضرت سیّدنا امام حسین کثرت سے نماز پڑھتے، روزے رکھتے، حج کرتے، صدقہ و خیرات کرتے اور
تمام بھلائی کے کاموں کو کرتے تھے۔
کربلا کے جانثاروں کو سلام، فاطمہ کے پیاروں کو سلام
یا حسین ابنِ علی مشکل کشا، آپ کے سب جانثاروں کو سلام

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت 5 شعبان المعظم 4 ہجری کو حضرت علی
رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہاکے گھر مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک شبیر یعنی حسین رکھا گیا آپ کا
نام بھی آپ کے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرح اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ۔ سبط رسول اللہ اور ریحانتہ الرسول (رسول اللہ
کے پھول) آپ کے القابات ہیں ۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپ نے دس محرم الحرام 60
ہجری کو میدان کربلا میں باطل کو خاک میں ملا کر جام شہادت نوش فرمایا۔ امام عالی
مقام بے شمار خصوصیات کے حامل ہیں ،آپ کی تمام خصوصیات کا احاطہ کرنا قدرِ مشکل ہے۔ان میں سے چندیہ ہیں ۔
(1) انسانوں کی مدتِ حمل عموماً 9 ماہ ہوتی ہے یہ اللہ پاک کی قدرت ہے اور اس میں کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں وہی علیم و خبیر
بہتر جانتا ہے ۔اگر کسی بچے کی پیدائش وقت
سے پہلے ہوجائے تو وہ مردہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ بھی ہوتو کچھ دن کی اذیت و تکلیف
کے بعد دم توڑ جاتا ہے مگر امام عالی مقام
کی شان و خصوصیت کے کیا کہنے ! اس بارے میں حضرت عارِف بِاللّٰہ نورُالدّین عبدُ
الرّحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ علیہ السلام اور امامِ عالی مقام امامِ
حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا
بچّہ زندہ نہ رہا جس کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہوئی ہو ۔( شواہد النبوۃ ، ص۲۲۸ )
(2)پیدائش کے بعد نبی پاک کی کرم نوازیاں : امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی
پیدائش کے بعد بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جب سردار انبیاء ،حبیب کبریا حضرت محمد مصطفےٰ
ﷺ نے اپنے چھوٹے نواسے کی ولادت کی خبر سنی تو آپ سیدہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ
الزہراء رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے
اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی آغوشِ
رحمت میں لے کر اپنے لعابِ دہن سے گھٹی دی۔ (البدايۃ والنہایہ، 5/519) آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی اور آپ
کا نام شبیر یعنی حسین رکھا۔
(3)نورانی پیشانی و رخسار :آپ کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے حضرت
علّامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ
حُسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ
جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے توآپ رضی اللہ عنہ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدَّس رُخسار (یعنی گال ) سے انوار نکلتے اور
قرب و جوارضِیا بار (یعنی اطراف روشن ) ہو جاتے۔ (شواہد النبوۃ ، ص۲۲۸ )
تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا
تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
(حدائقِ بخشش، ص۲۴۶ )
(4)رنگ و جسامت میں نبی پاک سے
مشابہت:آپ رضی اللہ عنہ نبی پاک ﷺ کے مشابہ تھے جیساکہ حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا
کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے
ہیں:جس کی یہ خواہش ہو کہ وہ ایسی ہستی کو دیکھے جو چہرے سے گردن تک سرکار ﷺ کے سب سے زیادہ مُشابہ ہو وہ حَسن بن علی رضی
اللہ عنہما کو دیکھ لے اور جس کی یہ خواہش ہو کہ ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے
ٹَخْنے تک رنگ و جِسامت میں نبیِ کریم ﷺ کے سب سے زِیادہ مُشابہ ہو وہ حُسین بن
علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے۔(معجم
کبیر، ۳/۹۵، حديث:۲۷۶۸)
(5)یوم عاشورہ کا آپ سے منسوب
ہونا : اسلام میں یوم عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام کو بہت اہمیت حاصل ہے اس دن بہت سے واقعات رونما ہوئے مثلا اسی دن حضرتِ سیِّدُنا نوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری (2) اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی (3)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس علیہ السلام
کی قوم کی توبہ قبول ہوئی (4)اِسی دن
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے (5)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے (الفردوس ج۱ ص۲۲۳
حدیث ۸۵۶) (6)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات
ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت (دریائے نیل میں ) غرق ہوا(بخاری ج۲ ص۴۳۸ حدیث
۳۳۹۷۔۳۳۹۸) (7) اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یوسف علیہ السلام کو قید سے رہائی ملی (8)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے
گئے(فیض القدیر ج۵ص۲۸۸تحت الحدیث۷۰۷۵) (9)سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہ
عنہ اور آپ کے خاندان اور رفقاء کو ا بھوکا پیا سارکھنے کے بعد اِسی عاشوراء کے دن
میدانِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔لیکن جب 10 محرم الحرام کو
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ کی
شہادت کو اتنی عظیم شہرت حاصل ہوئی
کہ محرم الحرام کا مہینہ بالخصوص 10 محرم
الحرام آپ کی ذات سے منسوب ہوگیا۔
.jpg)
مرکزی
مجلس شوریٰ کے نگران حاجی مولانا محمد عمران عطاری مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے شرکا کی تربیت کی اور مدنی چینل کے پروگرام
اور اس میں ہونے والے بیانات کے متعلق مدنی پھول بیان فرمائے۔ (Content:
Mohammad Hussain Attari)