سوال:     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مَیں کچھ اوراد و وظائف بستر پر لیٹ کر کرتا ہوں، جن میں سورہ ملک شریف کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں، تو کیا لیٹ کر قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

لیٹ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں حرج نہیں، جبکہ پاؤں سمیٹ لیے جائیں اور اگر لحاف اوڑھا ہو، تو منہ لحاف سے باہر نکال لیا جائے، ہاں اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ بستر پاک ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیٹتے وقت قرآن کریم کی کوئی بھی سورت پڑھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔ چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:’’ ما من مسلم یاخذ مضجعہ یقرا سورۃ من کتاب اللہ الا وکل اللہ بہ ملکا فلا یقربہ شیء یوذیہ حتی یھب متی ھب‘‘ترجمہ: جو مسلمان بھی لیٹتے وقت کتاب اللہ میں سے کوئی سورت پڑھ لے، اللہ عزوجل اس پر ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے، پھر ایذا دینے والی کوئی چیز بھی اس کے قریب نہیں آتی، حتی کہ وہ بیدار ہو جائے، چاہے جب بھی بیدار ہو ۔ (جامع ترمذی، ابواب الدعوات، باب ما جاء فیمن یقراء من القرآن عند المنام، جلد 2، صفحہ 178، مطبوعہ کراچی)

غنیۃ المتملی میں ہے:’’لا باس بالقراءۃ مضطجعاً اذا ضم رجلیہ۔۔۔ وضم الرجلین لمراعاۃ التعظیم بحسب الامکان‘‘ترجمہ: لیٹے ہوئے قراءت کرنے میں حرج نہیں، جبکہ پاؤں سمیٹ لے اور ممکنہ حد تک پاؤں سمیٹنا تعظیم کی وجہ سے ہے ۔ (غنیۃ المتملی، القراءۃ خارج الصلوۃ، صفحہ 496، مطبوعہ کراچی)

علامہ شامی علیہ الرحمۃ الھدیۃ العلائیہ میں فرماتے ہیں:’’لا باس بقراءۃ القرآن اذا وضع جنبہ الی الارض او مضطجعاً اذا غطی نفسہ باللحاف واخرج راسہ‘‘ترجمہ:اپنا پہلو زمین پر رکھ کر یا لیٹ کر قرآن کی قراءت کرنے میں حرج نہیں، (مگر) جب لحاف اوڑھا ہو، تو سر کو نکال لے ۔ (الھدیۃ العلائیہ، صفحہ 234، مطبوعہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:’’ لیٹ کر قرآن پڑھنے میں حرج نہیں، جب کہ پاؤں سمٹے ہوں اور منہ کھلا ہو ۔ ‘‘(بہار شریعت، حصہ 3، صفحہ 551، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

البتہ بعض اوقات لیٹ کر کچھ پڑھتے ہوئے نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے، اس صورت میں یا تو اُٹھ کر اَوراد و وَظائف و تلاوتِ قرآن کو مکمل کر لیا جائے یا پھر انہیں موقوف کر دیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پڑھنا کچھ اور چاہتے ہوں اور زبان سے کچھ اور نکل جائےجیسا کہ نماز میں نیند غالب ہو جانے کے متعلق تاکیداً ارشاد فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے:’’اذا نعس احدكم وهو يصلي فليرقد حتى يذهب عنه النوم فان احدكم اذا صلى وهو ناعس لا يدري لعله يستغفر فيسب نفسه‘‘ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو نماز کی حالت میں اونگھ آئے، تو اسے چاہیے کہ سو جائے، حتی کہ نیند چلی جائے کہ جب کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے ، تو ایسا نہ ہو کہ انجانے میں استغفار کی بجائے اپنے لیے بد دعا کر بیٹھے ۔(صحیح البخاری،کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم، جلد 1، صفحہ 33، مطبوعہ کراچی)

فضائلِ دعا میں ہے:’’اگر دعا کرتے کرتے نیند غالب ہو، جگہ بدل دے، یوں بھی نہ جائے، تو وضو کر لے، یوں بھی نہ جائے، تو موقوف کرے۔ صحیح حدیث میں اس کی وصیت فرمائی کہ مبادَا(خدا نخواستہ) استغفار کرنا چاہے اور زبان سے اپنے لیے بد دعا نکل جائے ۔ ‘‘ (فضائلِ دعا، صفحہ 109، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ایک اور مقام پہ فرمایا: ’’بارہا سوتے میں جو محض بلا قصد زبان سے نکل جائے، مقبول ہو جائے ولہذا حدیثِ صحیح میں ارشاد ہوا: جب نیند غلبہ کرے، تو ذکر و نماز ملتوی کر دو، مبادَا (کہیں ایسا نہ ہو کہ) کرنا چاہو استغفار اور نیند میں نکل جائے کوسنا ۔ ‘‘ (فضائلِ دعا، صفحہ 58، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:17صفرالمظفر1440ھ/27اکتوبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت،(دعوت اسلامی)