حدثنا عمرو بن سواد المصري قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث،
عن سعيد بن أبي هلال، عن زيد بن أيمن، عن عبادة بن نسي، عن أبي الدرداء، قال: قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم: ”أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة؛
فإنه مشهود، تشهده الملائكة، وإن أحدا لن يصلي علي، إلا عرضت علي صلاته، حتى يفرغ
منها“قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: ”وبعد الموت، إن الله حرم
على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق“
سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے:’’اَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْہُوْدٌ
تَشْہَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ وَاِنَّ اَحَدًا لَنْ یُّصَلِّیَ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ
عَلَیَّ صَلَا تُہُ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْہَا“
”یعنی جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے دُرُود بھیجا کرو کیونکہ یہ یومِ مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فِرِشتوں کی خُصُوصی حاضِری کا دن)ہے، اس دن فِرِشتے (خُصُوصی طور پر کثرت سے
میری بارگاہ میں ) حاضِر
ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر دُرُود بھیجتا ہے تو اس کے فارغ ہونے تک اس کا
دُرُود میرے سامنے پیش کردیا جاتا ہے ۔“ حضرتِ سَیِّدُنا ابُو دَرْداء رضی اللّٰہ عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی: ’’(یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!) اور آپ کے وصال کے بعد
کیا ہوگا؟‘‘ارشاد فرمایا:’’ہاں (میری
ظاہری) وَفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش
کیا جائے گا)“۔ ”اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ
الْاَنْبِیَاءِ،یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین کے لئے اَنبیائے کرام علیھم الصَّلوۃ والسَّلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔“ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ،”پس
اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نبی زِندہ ہوتا ہے اور
اسے رِزْق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘ (سنن ابن
ماجه،کتاب الجنائز،باب ذكر وفاته ودفنه صلى الله عليه وسلم،
جلد 1،صفحہ 519،حدیث:1637(
ہمیں کوشش کرکے بالخُصُوص جمعۃالمبارک
کے دن دُرُود شریف کی کثرت کرنی چاہئے کہ اَحادیثِ مُبارَکہ میں اِس روز کثرتِ دُرُود کی خاص طور پر تاکید کی
گئی ہے اور زَمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُوالسَّلام کے مُبارک جسموں کو
کیوں نہیں کھاتی ، اس کی اِیمان اَفروز تَوجِیہ بیان
کرتے ہوئے حضرتِ علَّامہ عبدالرؤف مَنَاوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللّٰہ الْقَوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’لِاَنَّہَا
تَتَشَرَّفُ بِوَقْعِ اَقْدَامِہِمْ عَلَیْہَا وَتَفْتَخِرُ بِضَمِّہِمْ اِلَیْہَا
فَکَیْفَ تَأْکُلُ مِنْہم،اس
لئے کہ زمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مُبارک قَدموں کے بوسے سے مُشرَّف ہوتی ہے اور اسے یہ
سَعادت ملتی ہے کہ َانبیائے کرام کے مُبارک اَجسام زمین سے مَس ہوتے
ہیں تو یہ اِن کے جسموں کو کیسے کھا سکتی ہے ۔ (فیض القدیر،حرف الھمزۃ،جلد 2،صفحہ
535،تحت الحدیث 2480)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات انبیاء عَلَیْھِمُ
الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مقدس اجسام ان کی مبارک قبروں میں سلامت رہتے ہیں اور زمین پر
حضرت حق جل جلالہ نے حرام فرما دیا ہے کہ ان کے مقدس جسموں پر کسی قسم کا تغیر و
تبدل پیدا کرے۔ جب تمام انبیا عَلَیْھِمُ
الصَّلٰوۃ والسَّلام کی یہ شان ہے تو پھر بھلا حضور سید الانبیاء و سید المرسلین
اور امام الانبیاء و خاتم النبییّن صلى الله عليه وسلم کے مقدس جسم انور کو زمین کیونکر کھا سکتی ہے؟
اس لئے تمام علماء امت و اولیاء امت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضورِ اقدس صلى الله عليه وسلم اپنی
قبر اطہر میں زندہ ہیں اور خداعزوجل کے حکم سے بڑے بڑے تصرفات فرماتے رہتے ہیں اور اپنی خداداد پیغمبرانہ قوتوں
اور معجزانہ طاقتوں سے اپنی امت کی مشکل کشائی اور ان کی فریاد رسی فرماتے رہتے
ہیں۔
خوب یاد رکھئے !کہ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ
رکھے وہ یقینا بارگاہِ اقدس کا گستاخ بد عقیدہ، گمراہ اور اہل سنت کے مذہب سے خارج
ہے۔ (سیرتِ
مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،صفحہ 645)
حضراتِ انبیاء عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام بالخصوص حضرت سیدالانبیاء صلى الله عليه وسلم اپنی
اپنی قبر میں لوازمِ حیات جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور ہر گز ہرگز ان کے جسموں کو
مِٹی نہیں کھاسکتی کیوں کہ اللہ پاک نے زمین پر حرام ٹھہرادیا ہے کہ وہ انبیاء
کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے جسموں کو کھاسکے۔
اس حدیث کا آخری فقرہ کہ ” فَنَبِیُّ
اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ“ یعنی اللہ عزوجل کے نبی زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس بارے
میں صاحبِ مرقاۃ کا بیان ہے کہ ("يرزق"):رزقا معنويا فإن الله تعالى قال في حق الشهداء من أمته (بل أحياء عندربهم يرزقون) [آل عمران: 169]
فكيف سيدهم بل رئيسهم۔۔۔۔ ولا ينافيه أن يكون هناك رزق حسي أيضا، وهو الظاهر المتبادر۔
(مرقاة المفاتيح شرح
مشكاة المصابيح،جلد
3،صفحہ 1020،تحت الحدیث 1366)
یعنی انہیں رزقِ معنوی دیا جاتا ہے اس لیے کہ
اللہ پاک نے آپ کی امت کے شہیدوں کے بارے میں فرمایا کہ ”بلکہ وہ زندہ ہیں اور
روزی دیئے جاتے ہیں۔“ تو پھر کیا حال ہوگا ان شہیدوں کے سردارکابلکہ رئیس کا اور
یہ جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ رزق معنوی دیاجاتا ہے تو یہ اسکے منافی نہیں ہے کہ اللہ
پاک انہیں رزق حسی بھی عطا فرمائے اور یہاں یہی رزق حسی مراد لینا ظاہر ہے جو جلد
ذہنوں میں آجاتا ہے۔ (یعنی ظاہری طور
پر کھانا پینا)۔ (بہشت
کی کنجیاں،صفحہ 149)
از: مولانا سید کامران عطاری مدنی
توجہ فرمائیں:
مضمون کے تمام مندرجات (حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح،پروف ریڈنگ، فارمیشن ودیگر کا م) مؤلف
کے ذمے ہیں، ادارہ اس کاذمہ دار نہیں، الغرض شرعی تفتیش ادارے کی جانب سے کروائی جاچکی ہے۔راقم کی جانب
سےمضمون کو ہر طرح کی اغلاط سے پاک کرنے کی مقدوربھرکوشش کی گئی ہے تاہم پھر بھی مضمون میں اگر کہیں غلطی پائیں تو مذکورہ
میل آئی ڈی پر رابطہ فرمائیں: