اللہ پاک کا اپنے پیارے پیارے اور آخری نبیﷺ کی امت پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ماہِ
رمضان جیسا عظیم الشان مہمان عطا فرمایا ہے۔رمضان المبارک کی اہمیت کے لیے تو یہی
ایک فرمان ِمصطفےٰ کافی ہے کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش!پورا سال رمضان ہی ہو ۔
(ابنِ خُزَیمہ،3/190،حدیث:1886)
جنتی صحابی حضرت ابو سعید خُدْرِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک مرتبہ سلطانِ دو جہاں،شہنشاہ
ِکون و مکاں،رحمتِ عالمیان ﷺ نے رمضان کی پہلی تاریخ سے 20 رمضان تک اعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:میں
نے شبِ قدر کی تلاش کے لیے رمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا،پھر درمیانی عشرے کا
اعتکاف کیا، پھر مجھے بتایا گیا کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے۔لہٰذا تم میں سے جو
شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ کر لے۔( مسلم، ص 457،حدیث:2769)
رمضان کے مہینے کی ایک خصوصیت ہے کہ اللہ پاک نے اس
میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ2 سورة البقرہ کی آیت نمبر 185 میں خدائے رحمن کا فرمانِ عالیشان ہے:شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ
الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ
الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ
مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ
بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ
وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(1۸۵)ترجمہ کنزالایمان: رمضان کا مہینہ،جس
میں قرآن اُترا،لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں،تو تم میں
جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے
رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ پاک تم پر آسانی
چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ پاک
کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔
آقا ﷺ عبادت پر کمر بستہ ہو جاتے:ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان آتا تو شہنشاہِ
نبوت ،تاجدارِ رسالت ﷺ بیس دن نماز اور نیند کو ملاتے تھے ۔پس جب آخری عشرہ ہوتا
تو اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے۔ (مسند امام احمد،9/338،حدیث:24444)ایک
اور روایت میں فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتاتو حضور اکرم ﷺ کا رنگ مبارک
متغیر(یعنی تبدیل) ہوجاتا اور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔ ( شعب
الایمان،3/310،حدیث:3625 )
آقا ﷺ رمضان میں خوب خیرات کرتے:حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو سرکارِ
مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رِہا کرتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔( شُعْبُ الْایمان،3/
311، حدیث 3629 )
رمضان میں ذکر کی فضیلت:امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسولِ انور،مدینے کے تاجدار ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:رمضان میں ذکر اللہ
کرنے والے کو بخش دیا جاتا ہے اور اس مہینے میں اللہ پاک سے مانگنے والا محروم نہیں
رہتا۔ ( شُعْبُ الایمان،3/311،حدیث:3627)
رمضان المبارک اور معمولاتِ نبوی:نبیِ
کریم ﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے کہ رمضان المبارک کا اہتمام ماہِ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے
ساتھ فرماتے تھے۔
نبیِ کریمﷺ کا دعا فرمانا :حضور
اکرم ﷺ ماہِ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے: اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ
وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی اے اللہ پاک ہمارے لئے
رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور
ہمیں رمضان سے ملا دے۔(معجم اوسط،3/85،
حدیث : 3939)
نبیِ کریم ﷺ کس چیز سے روزہ افطار فرماتے تھے؟حضور
اکرم ﷺ اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتی تو
پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ رسول ِاکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں کوئی روزہ اِفطار کرے تو کَھجور یا چھوہارے سے اِفطار
کرے کہ وہ برکت ہے اور اگر نہ ملے تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے ۔( ترمذی،2/162،حدیث:695)اللہ
پاک ہمیں سنت کے مطابق رمضان المبارک گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین یا رب
العالمین بجاہِ نبیِ الامینﷺ