از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ
حمل کی تکلیف:
بی
بی آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں
نے زمانہ حمل میں کسی طرح کی تکلیف اٹھائی نہ کوئی بوجھ محسوس کیا۔([i]) سیرت حلبیہ میں آپ رضی اللہُ عنہا کا یہ قول مروی ہے کہ مجھے حمل
سے پیدائش تک کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ (2) مگر مواہب اللدنیہ میں حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ
فرمانِ عالیشان مروی ہے کہ میری والدہ نے دیگر عورتوں کی طرح حمل کا بوجھ محسوس
کیا اور اپنی سہیلیوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا، پھر میری والدہ نے ایک خواب دیکھا کہ
ان کے بطن اطہر میں جو کچھ ہے وہ نور ہے۔ دورانِ حمل چونکہ بوجھ محسوس کرنے اور نہ کرنے دونوں
طرح کی روایات مروی ہیں، لہٰذا
علمائے کرام نے ان روایات میں یوں تطبیق
دی ہے کہ ابتدائی حالت میں بوجھ تھا، پھر
کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ کیفیت بھی ختم ہو گئی۔(3)
دورانِ حمل کے عجائبات:
حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں پورے نو مہینے
تشریف فرما رہے ۔ اس دوران حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے سر یا پیٹ میں کوئی درد اور کسی قسم کی تکلیف
نہ ہوئی، بلکہ حاملہ عورتوں کو جو تکالیف ہوتی ہیں آپ ان سے بھی محفوظ رہیں۔(4)
امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے نقل کیا ہے
کہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب
میں چھ ماہ کی حاملہ تھی تو کوئی میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا: اے آمنہ! آپ کو تمام
جہاں سے بہتر ہستی کی ماں بننے کا شرف ملنے والا ہے، لہٰذا جب یہ ہستی دنیا میں تشریف لائے تو اس کا نام محمد
رکھئے گا اور اپنے معاملے (یعنی آپ جو انوار و تجلیات وغیرہ دیکھیں، ان ) کوکسی پر
ظاہر مت کیجئے گا۔ (5) ایک روایت میں ہے کہ سیدہ آمنہ نے خواب دیکھا کہ
کوئی انہیں کہہ رہا ہے کہ آپ تمام مخلوقِ خدا سے بہتر اور تمام جہانوں کے سردار کی
ماں بننے والی ہیں ۔لہٰذا جب وہ پیدا ہوں توان کا نام محمد اور احمد رکھئے
گا، نیز ان کے گلے میں یہ تعویز ڈال دیجئے گا۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئیں تو اپنے سر
کے قریب سنہری حروف سے لکھی ہوئی ايك تحریر موجود پائی۔ (اس تحریر کا مفہوم کچھ یوں ہے)میں پناہ مانگتی
ہوں اللہ وحدہ لاشریک کی ہر حاسد کے شر سے، ہر بھٹکی مخلوق سے، کھڑی ہو یا بیٹھی ہو، جو سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی اور فساد کیلئے
کوشاں ہے۔ نیز پناہ مانگتی ہوں ہر پھونکنے اور گرہ لگانے والے سے اور مردود مخلوق
سے جو لوگوں کی گزرگاہوں پر گھات لگائے بیٹھتی ہے۔ میں اس بچے کو خدائے بر ترکی
پناہ میں دیتی ہوں اور اسی کے ظاہری و باطنی دست قدرت کے حوالے کرتی ہوں کہ اللہ
پاک کا دست قدرت ہی تمام مخلوق پر غالب ہے اور اللہ پاک نے انہیں اپنے حجاب میں لے
رکھا ہے ، لہٰذا
کوئی بھی انہیں تا ابد کسی حال میں
نقصان نہ پہنچا پائے گا۔(6) یہ
روایت اگرچہ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ سیرت کی کئی کتب میں موجود ہے، مگر شرف مصطفیٰ نامی کتاب میں اس کے بعد یہ اضافہ
بھی موجود ہے کہ سیدہ آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس خواب اور تعویز کا ذکر چند
عورتوں سے کیا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ (یہ کوئی آسیب ہے، لہٰذا ) اپنے گلے اور بازو پر لوہے کی کوئی چیز باندھ
لوں، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مگر چند ہی دنوں میں وہ لوہے کی چیز خود بخود ٹوٹ
گئی اور میں جب بھی اسے باندھتی ایسا ہی ہوتا، لہٰذا میں نے باندھنا ہی چھوڑ دیا۔(7)
نور سے سارا جہان منور ہو گیا:
حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ابھی
اپنی والدہ ماجدہ کے شکم میں ہی تھے کہ ایک بار ان سے ایسا نور نکلا جس سے سارا
جہان منور ہو گیا اور انہوں نے بصرے کے محلات دیکھے۔ بصرہ شام کی جانب ایک شہر کا
نام ہے، اسی
قسم کا ایک واقعہ ولادت کے وقت میں بھی منقول ہے۔(8)چنانچہ
علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی اپنی کتاب السیرۃ النبویہ میں ان دونوں واقعات
میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت آمنہ نے جو نور حمل مبارک کے وقت دیکھا
تھا وہ خواب میں تھا اور جو ولادت باعث ہزار سعادت کے وقت دیکھا تھا وہ عالم
بیداری میں تھا۔(9)
ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
ولادت کے وقت نور کے ظہور سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ ایسا نور لے کر آئے ہیں جس کے
ذریعے تمام اہل زمین کو ہدایت کی دولت نصیب ہو گی اور شرک کی تاریکی دور ہو گی۔ جیسا
کہ ارشادِ خداوندی ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ
نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌۙ0 يَّهْدِيْ بِهِ
اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ
اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ يَهْدِيْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ0(10)(پ6،المائدہ: 15،
16)ترجمہ کنز العرفان:بیشک
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آ گیا اور
ایک روشن کتاب۔ اللہ اس کے ذریعے اسے سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اللہ
کی مرضی کا تابع ہو جائے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا
ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
جہاں تک حضور کی ولادت کے وقت نور سے بُصریٰ کے محلات روشن ہونے کا تعلق
ہے تو وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک
شام نور نبوت کے ساتھ خاص ہو گا کیونکہ وہ آپ کی بادشاہت والے ملک کا شہر ہے جیسا کہ حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سابقہ کتب میں یہ لکھا ہوا ہے:حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں، ان کی جائے پیدائش مکہ،
ہجرت کا مقام مدینہ منورہ اور بادشاہت ملکِ شام میں ہوگی۔ چنانچہ مکہ مکرمہ سے نبوت محمدی کی ابتدا ہوئی اور آپ
کی بادشاہت ملک شام تک پہنچی اوراسی لیے آپ کو معراج کی شب ملک شام کی جانب بیت المقدس تک سیر کرائی گئی جیسا کہ آپ
سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بھی ملک شام کی طرف ہجرت
فرمائی تھی ۔(11)
پیدائش سے پہلے ربیع الاول کی ہر رات بشارت:
علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں: ربیع الاول
کی پہلی رات سیدہ آمنہ کو سرور و مسرت حاصل ہوئی۔ دوسری رات آرزو پانے کی بشارت دی
گئی۔ تیسری رات میں کہا گیا کہ آپ اس ہستی کی ماں بننے والی ہیں جو ہماری حمد وشکر
بجا لائے گی۔ چوتھی رات میں آپ نے آسمانوں سے فرشتوں کی تسبیح کی آواز سنیں۔ پانچویں
رات حضرت ابراہیم کو خوش خبری دیتے ہوئے سنا کہ اے آمنہ! مدح وعزت کے مالک کی ماں
بننے کا شرف پانے پر خوش ہو جاؤ۔ چھٹی رات میں فرحت و برکت مکمل ہو گئی۔ ساتویں
رات میں نور چمکا اور مدہم نہیں ہوا۔ آٹھویں رات میں فرشتوں نے سیدہ آمنہ کے گرد طواف
کیا۔ نویں رات میں سیدہ آمنہ کی سعادت و غنا ظاہر ہوئی۔ دسویں رات میں فرشتوں نے
شکر و ثنا کے ساتھ لا الہ الا اللہ کا ورد کیا۔ گیارہویں رات میں سیدہ
آمنہ سے مشقت و تھکاوٹ دور ہوگئی ۔(12)
آسمان و زمین سے ندا کا آنا:
سیدہ آمنہ فرماتی ہیں
کہ حمل کے ہر ماہ میں آسمان و زمین کے درمیان یہ آواز سنا کرتی کہ آپ کو مبارک ہو
وہ وقت قریب آ پہنچا ہے کہ ابو القاسم دنیا میں جلوہ افروز ہونے والے ہیں جو صاحب
خیر و برکت ہیں۔(13)
[i] خصائص الکبری للسیوطی
مترجم، ص 140 2 سیرت حلبیہ، 1/ 69
3 مواہب اللدنیہ، 1/ 62 4 مواہب اللدنیہ ، 1/ 63 5 دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 362،
حدیث: 555 6 دلائل النبوۃ لابی
نعیم، ص 77، حدیث: 78 7 شرف المصطفیٰ، 1/
351، حدیث: 97 8 مدارج النبوت
مترجم، 2/ 28 9 السیرۃ النبویۃ،
1/ 45 0 لطائف المعارف، ص 173 A لطائف المعارف، ص 174 B مولد العروس اردو، ص 73 C مدارج النبوت مترجم، 2/
28