از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا وہ خوش نصیب خاتون ہیں جنہیں اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت یوسف علیہ السّلام کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا آپ کا نام راعیل ہے مگر عوام میں آپ اپنے لقب زُلیخا سے زیادہ مشہور ہیں۔ ([1])

حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا ایک مغربی بادشاہ طیموس کی انتہائی خوبصورت شہزادی تھیں۔ نو برس کی عمر میں آپ نے خواب میں پہلی بار حضرت یوسف علیہ السّلام کا دیدار کیا تو اسی وقت ان کی دیوانی ہو گئیں، پھر دوسرے سال خواب دیکھا تو حالت مزید خراب ہو گئی یہاں تک کہ تیسرے سال خواب میں جب یہ معلوم ہوا کہ آپ علیہ السّلام شاہِ مصر ہیں تو انہوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ چونکہ شاہِ مصر حضرت یوسف علیہ السّلام ہیں، لہٰذا شاہِ مصر سے شادی کر لی، لہٰذا حقیقت معلوم ہونے پر بے ہوش ہو گئیں، پھر آپ کو ہاتِفِ غیبی سے آواز آئی کہ جس ہستی کی آپ تمنا رکھتی ہیں اس کے شاہِ مصر بننے تک صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھیں۔(2)مگر آپ چونکہ حضرت یوسف علیہ السّلام کی حقیقت سے بخوبی آگاہ تھیں نہ ابھی تک ایمان لائی تھیں، اس لئے جب حضرت یوسف کو دیکھا تو صبر نہ کر سکیں، جس کی وجہ سے آپ کو کئی تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا، یہاں تک کہ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کے بقول انہوں نے حضرت یوسف علیہ السّلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کر دیا، 70 اونٹوں کے بوجھ کے برابر جواہر اور موتی نثار کر دئیے، جب بھی کوئی یہ کہتا کہ میں نے یوسف کو دیکھا ہے تو وہ اسے بیش قیمت ہار دے دیتیں یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔(3) مگر بعد میں جب ایمان لے آئیں اور حضرت یوسف علیہ السّلام کی زوجیت میں داخل ہوئیں تو سوائے عبادت و ریاضت اور توجہ الی اللہ کے کوئی کام نہ رہا، اگر حضرت یوسف علیہ السّلام دن کو اپنے پاس بلاتے تو کہتیں رات کو آؤں گی اور رات کو بلاتے تو دن کا وعدہ کرتیں۔ آخر حضرت یوسف علیہ السّلام نے جب پوچھا کہ آپ تو میری محبت میں دیوانی تھیں! تو عرض کرنے لگیں: یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب میں محبت کی حقیقت سے واقف نہ تھی، اب چونکہ مجھے حقیقت معلوم ہو چکی ہے اس لئے اب میری محبت میں آپ کی شرکت بھی گوارا نہیں۔ اس پر جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ پاک نے اس بات کا حکم فرمایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ آپ کے بطن سے اللہ پاک دو بیٹے پیدا کرے گا جو دونوں نبی ہوں گے تو حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا نے اللہ پاک کے حکم و حکمت کی بنا پر سر جھکا دیا۔ (4)

یاد رہے ! حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کی توبہ کا اعلان قرآنِ کریم میں کیا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا تھا اور قصور کا اقرار توبہ ہی ہے۔ لہٰذا حضرت زلیخا کو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حضرت یوسف کی صحابیہ اور ان کی مقدس بیوی تھیں۔ اللہ پاک نے بھی ان کے قصوروں کا ذکر فرما کر ان پر غضب ظاہر نہ فرمایا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھیں اور توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے گناہ کی طرح ہوتا ہے۔(5)نیز اپنے مجازی عشق کے لئے معاذ اللہ حضرت یوسف علیہ السّلام اور زُلیخا کے قصّے کو دلیل بنانا سخت جہالت و حرام ہے، کیونکہ عشق صرف زلیخا ہی کی طرف سے تھا، حضرت یوسف کا دامن اس سے پاک تھا۔ (6)لہٰذا حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کا ذکر ہرگز ہرگز بے ادبی سے نہ کیا جائے بلکہ ہر حال میں احترام کا خیال رکھا جائے، بہت سے بے باک لوگ حضرت یوسف علیہ السّلام اور زلیخا کے واقعے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور معاذ اللہ ان کی شان میں بہت سی بے ادبیاں کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو فوراً سچی توبہ کر لینی چاہیے ورنہ بربادی یقینی ہے۔

حضرت یوسف و زلیخا کا نکاح

حضرت یوسف علیہ السّلام سے حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کی شادی کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے، جیسا کہ دین و دنیا کی انوکھی باتیں نامی کتاب میں ہے کہ عزیزِ مصر کی موت کے بعد چونکہ حضرت زلیخا تنگ دست و محتاج ہو چکی تھیں اور آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی تھی تو کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر آپ حضرت یوسف جو کہ اب شاہِ مصر بھی ہیں، سے اپنا معاملہ ذکر کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ پر رحم کریں اور آپ کی مدد فرما کر آپ کو غنی کر دیں کیونکہ آپ نے بھی ان کا خیال رکھا تھا اور ان کو عزت دی تھی۔ اس پر جب کسی نے انہیں یہ کہا: ایسا نہ کیجئے گا! ہو سکتا ہے کہ ان کو آپ کا وہ سلوک یاد آ جائے جب آپ نے ان پر الزام لگایا تو انہیں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ بھی آپ کے ساتھ ویسا ہی کریں جیسا آپ کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوا۔ تو فرمانے لگیں: میں ان کی بردباری اور کرم نوازی کو جانتی ہوں۔ چنانچہ آپ حضرت یوسف کی گزرگاہ میں ایک ٹیلے پر بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگیں۔ جب آپ قوم کے تقریباً ایک لاکھ معزز لوگوں اور وزیروں مشیروں کے ساتھ نکلے اور بی بی زلیخا نے حضرت یوسف کی خوشبو محسوس کی تو آپ کھڑی ہوئیں اور آواز دی: پاکی ہے اس کے لئے جس نے معصیت کے سبب بادشاہ کو غلام اور اطاعت کے سبب غلام کو بادشاہ بنا دیا۔ آپ نے پوچھا: تم کون ہو؟ عرض کی: میں وہی ہوں جو آپ کی خدمت خود کرتی تھی، آپ کے بالوں میں اپنے ہاتھ سے کنگھی کرتی تھی، آپ کے رہنے کی جگہ کی خود صفائی کرتی تھی۔ مجھے میرے کئے کی سزا مل چکی، میری قوت ختم ہو گئی، میرا مال ضائع ہو گیا، میری آنکھوں کی روشنی ختم ہو گئی اور میں لوگوں سے سوال کرنے پر مجبور ہو گئی ہوں ۔ پہلے مصر کے لوگ میری نعمت کو دیکھ کر رشک کرتے تھے اور اب میں اس سے محروم ہو چکی ہوں کیونکہ فساد کرنے والوں کی یہی سزا ہے ۔ یہ سن کر حضرت یوسف بہت زیادہ روئے اور حضرت زلیخا سے فرمایا: کیا تیرے دل میں میری محبت میں سے کچھ باقی ہے؟ آپ نے عرض کی: جی ہاں! اس کی قسم جس نے حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا! مجھے آپ کی طرف دیکھنا زمین بھر سونا چاندی ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ آپ وہاں سے چلے گئے اور حضرت زلیخا کی طرف پیغام بھیجا: اگر تمہاری رضامندی ہو تو ہم تم سے نکاح کر لیں اور اگر تم شادی شدہ ہو تو تمہیں غنی کر دیں؟ آپ نے حضرت یوسف کے پیغام لانے والے سے کہا: میں جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں کیونکہ میری جوانی اور حسن و جمال کے وقت تو انہوں نے میری طرف توجہ نہیں دی اور اب جب کہ میں بوڑھی، اندھی اور فقیر ہوں تو وہ مجھے کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ بہرحال حضرت یوسف علیہ السّلام نے ان سے نکاح کر لیا اور ان کے پاس آئے، پھر نماز پڑھی اور اللہ پاک سے اس کے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا کی تو اللہ پاک نے حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کا حسن و جمال، بصارت اور جوانی لوٹا دی۔ نکاح کے وقت آپ باکرہ تھیں اور آپ سےاَفراثیم بن یوسف اور منشا بن یوسف پیدا ہوئے۔ حضرت یوسف اور حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا نے اسلام میں بڑی خوشگوار زندگی گزاری حتّٰی کہ موت نے آپ دونوں کے درمیان جدائی ڈالی۔(7)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] روح البیان، 4/231 2 پردے کے بارے میں سوال جواب، ص337 3 مکاشفۃ القلوب،ص 72 4 مکاشفۃ القلوب،ص 72 5 تفسیر صراط الجنان، 4/ 575 6 پردے کے بارے میں سوال جواب، ص 321 7 دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/249