سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے گھر میں قربانی کاگوشت پڑا ہوا ہے۔ چند دن پہلے میرا ایک عزیز گھر میں آیا اس نے بتایا کہ قربانی کاگوشت محرم سے پہلے پہلے ختم ہوجانا چاہئے محرم میں قربانی کا گو شت کھانا گناہ ہے۔ میری رہنمائی فرمائیں کہ قربانی کا گوشت کب تک کھا سکتے ہیں کیا واقعی محرم میں کھانا گناہ ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مستحب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اورافضل یہ ہے کہ سارے گوشت کے تین حصّے کئے جائیں ایک حصّہ فُقَرا کو اور ایک حصّہ دوست واحباب کو دے اور ایک حصّہ اپنے گھر والوں کیلئے رکھ لے۔ اگر ساراگوشت اپنے گھر میں رکھا اور استعمال کر لیا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں اور جب تک چاہیں رکھ سکتے ہیں استعمال کرسکتے ہیں محرم سے پہلے پہلے ختم کرنا شرعاً ضروری نہیں، ابتداءِ اسلام میں تین دن سے زیادہ رکھنے کی ممانعت تھی جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ لہٰذا قربانی کرنے والا یا جسے وہ دے جب تک چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ محرم میں قربانی کاگوشت کھانے کو گناہ کہنا اٹکل سے بغیر تحقیق کے غلط مسئلہ بتانا ہے جو بلاشبہ ناجائز و گناہ ہے اس لئے کہنے والے پر توبہ واجب ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


سوال:     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مَیں کچھ اوراد و وظائف بستر پر لیٹ کر کرتا ہوں، جن میں سورہ ملک شریف کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں، تو کیا لیٹ کر قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

لیٹ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں حرج نہیں، جبکہ پاؤں سمیٹ لیے جائیں اور اگر لحاف اوڑھا ہو، تو منہ لحاف سے باہر نکال لیا جائے، ہاں اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ بستر پاک ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیٹتے وقت قرآن کریم کی کوئی بھی سورت پڑھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔ چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:’’ ما من مسلم یاخذ مضجعہ یقرا سورۃ من کتاب اللہ الا وکل اللہ بہ ملکا فلا یقربہ شیء یوذیہ حتی یھب متی ھب‘‘ترجمہ: جو مسلمان بھی لیٹتے وقت کتاب اللہ میں سے کوئی سورت پڑھ لے، اللہ عزوجل اس پر ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے، پھر ایذا دینے والی کوئی چیز بھی اس کے قریب نہیں آتی، حتی کہ وہ بیدار ہو جائے، چاہے جب بھی بیدار ہو ۔ (جامع ترمذی، ابواب الدعوات، باب ما جاء فیمن یقراء من القرآن عند المنام، جلد 2، صفحہ 178، مطبوعہ کراچی)

غنیۃ المتملی میں ہے:’’لا باس بالقراءۃ مضطجعاً اذا ضم رجلیہ۔۔۔ وضم الرجلین لمراعاۃ التعظیم بحسب الامکان‘‘ترجمہ: لیٹے ہوئے قراءت کرنے میں حرج نہیں، جبکہ پاؤں سمیٹ لے اور ممکنہ حد تک پاؤں سمیٹنا تعظیم کی وجہ سے ہے ۔ (غنیۃ المتملی، القراءۃ خارج الصلوۃ، صفحہ 496، مطبوعہ کراچی)

علامہ شامی علیہ الرحمۃ الھدیۃ العلائیہ میں فرماتے ہیں:’’لا باس بقراءۃ القرآن اذا وضع جنبہ الی الارض او مضطجعاً اذا غطی نفسہ باللحاف واخرج راسہ‘‘ترجمہ:اپنا پہلو زمین پر رکھ کر یا لیٹ کر قرآن کی قراءت کرنے میں حرج نہیں، (مگر) جب لحاف اوڑھا ہو، تو سر کو نکال لے ۔ (الھدیۃ العلائیہ، صفحہ 234، مطبوعہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:’’ لیٹ کر قرآن پڑھنے میں حرج نہیں، جب کہ پاؤں سمٹے ہوں اور منہ کھلا ہو ۔ ‘‘(بہار شریعت، حصہ 3، صفحہ 551، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

البتہ بعض اوقات لیٹ کر کچھ پڑھتے ہوئے نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے، اس صورت میں یا تو اُٹھ کر اَوراد و وَظائف و تلاوتِ قرآن کو مکمل کر لیا جائے یا پھر انہیں موقوف کر دیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پڑھنا کچھ اور چاہتے ہوں اور زبان سے کچھ اور نکل جائےجیسا کہ نماز میں نیند غالب ہو جانے کے متعلق تاکیداً ارشاد فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے:’’اذا نعس احدكم وهو يصلي فليرقد حتى يذهب عنه النوم فان احدكم اذا صلى وهو ناعس لا يدري لعله يستغفر فيسب نفسه‘‘ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو نماز کی حالت میں اونگھ آئے، تو اسے چاہیے کہ سو جائے، حتی کہ نیند چلی جائے کہ جب کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے ، تو ایسا نہ ہو کہ انجانے میں استغفار کی بجائے اپنے لیے بد دعا کر بیٹھے ۔(صحیح البخاری،کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم، جلد 1، صفحہ 33، مطبوعہ کراچی)

فضائلِ دعا میں ہے:’’اگر دعا کرتے کرتے نیند غالب ہو، جگہ بدل دے، یوں بھی نہ جائے، تو وضو کر لے، یوں بھی نہ جائے، تو موقوف کرے۔ صحیح حدیث میں اس کی وصیت فرمائی کہ مبادَا(خدا نخواستہ) استغفار کرنا چاہے اور زبان سے اپنے لیے بد دعا نکل جائے ۔ ‘‘ (فضائلِ دعا، صفحہ 109، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ایک اور مقام پہ فرمایا: ’’بارہا سوتے میں جو محض بلا قصد زبان سے نکل جائے، مقبول ہو جائے ولہذا حدیثِ صحیح میں ارشاد ہوا: جب نیند غلبہ کرے، تو ذکر و نماز ملتوی کر دو، مبادَا (کہیں ایسا نہ ہو کہ) کرنا چاہو استغفار اور نیند میں نکل جائے کوسنا ۔ ‘‘ (فضائلِ دعا، صفحہ 58، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:17صفرالمظفر1440ھ/27اکتوبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت،(دعوت اسلامی)


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنا کیسا ہے؟ سائل : محمد دانیال رضا(ڈڈیال، کشمیر)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنا اگر چہ ناجائز و حرام نہیں ، مگر بلا ضرورتِ صحیحہ مکروہ ضرور ہے۔

سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1340ھ )اسی طرح کے سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’منجن ناجائز و حرام نہیں جبکہ اطمینانِ کافی ہو کہ اس کا کوئی جزو حلق میں نہ جائے گا ،مگر بے ضرورتِ صحیحہ کراہت ضرور ہے ۔درِّ مختار میں ہے : ”کرہ لہ ذوق شیء۔۔۔ الخ“ یعنی روزہ دار کو کسی چیز کا چکھنا مکروہ ہے۔ ‘‘ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 551 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

چونکہ ٹوتھ پیسٹ میں زیادہ امکان ہے کہ کوئی جزو اندر چلا جائے ، اس لیے روزہ کی حالت میں اس سےضرور احتراز کیا جائے۔

سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’روزہ میں منجن ملنانہ چاہیے۔‘‘ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 511 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:شیخ الحدیث و التفسیر مفتی قاسم قادری مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:21صفرالمظفر1435 ھ/25 دسمبر2013 ء


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شوگر کے مریض انسولین کا انجیکشن استعمال کرتے ہیں جو کہ رَگ کے بجائے گوشت میں لگایا جاتا ہے تو شوگر والے روزے کی حالت میں انسولین لگاسکتے ہیں یا نہیں ؟ اس سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟ سائل:محمد عدنان عطاری(مرکز الاولیا، لاہور)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حالتِ روزہ میں انسولین کا انجیکشن لگانا جائز ہے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ عمومی طور پر انجکشن کی سوئی جوف(معدہ یا معدہ تک جانے والے راستوں کے اندرونی حصے)یا دماغ تک نہیں پہنچائی جاتی اور جوف تک جانے کا کوئی عارضی راستہ بھی نہیں بنتا کہ جس کے ذریعے دوائی جوف تک پہنچ سکے لہٰذا یہ انجیکشن روزہ ٹوٹنے کا سبب نہیں ۔ مسامات کے ذریعے کسی چیز کا داخل ہونا ویسے ہی روزے کے منافی نہیں جیسا کہ جسم پر تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کہ تیل اگرچہ جسم کے اندر جاتا ہے لیکن مسامات کے ذریعے اور یہ روزے کے خلاف نہیں ۔

فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:”تحقیق یہ ہے کہ انجیکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے رَگ میں لگایا جائے چاہے گوشت میں ۔“(فتاویٰ فیض الرسول،1/516)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مولانا ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی