اللہ ربُّ
العزّت نے مخلوق کی راہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو مبعوث
فرمایا، نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ چلتے چلتے نبی ِّآخرُالزّماں جنابِ محمدِ مصطفےٰ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچا اور آپ پر نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا،
اب مخلوق کی ہدایت کی ذمّہ داری امتِ محمدیہ کے سِپُرد ہوئی، زمانۂ صحابہ سے تاحال
ہر دور میں بڑی بڑی عظیم، صاحبِ عقل و فراست اور دور اندیش ہستیاں تشریف لائیں
جنہوں نے ہر دور کے لحاظ سے نئے نئے انداز اور طریقوں سے پیغامِ توحید و رسالت کو
عام کیا، اسلام کا سورج مکۂ مکرمہ سے طلوع ہوا اور ساری دنیا تک اس کا نور پہنچا،
وقت گزرتے گزرتے بیسویں صدی عیسوی کا دور آن پہنچا، یہ دور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ
ساتھ اسلام سے دوری، دینی احکامات پر عمل سے بیزاری اور طرح طرح کے فتنوں سے بھرا
ہوا تھا، ان حالات میں ایسے راہبر، راہنما اور لیڈر کی ضرورت تھی کہ جو نبیِّ آخرُ
الزّماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کا ہرسُو پَرچار کرے، صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان، اہلِ بیت
اطہار اور اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کے نقشِ قدم پر چلانے والا ہو، حُضور
غوثِ صمدانی شیخ عبدُالقادر جیلانی کے خلیفہ و نائب ہونے کا حق ادا کرے، اللہ پاک
کا کرم ہوا کہ اس فتنوں کے دور میں بھی کثیر علمائے اسلام اور مصلحینِ امت کے ساتھ
ساتھ امتِ مسلمہ کو امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری
رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ جیسی عظیم ہستی
عطا ہوئی۔
امیرِ اہلِ سنّت
دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے 1981ء میں
دعوتِ اسلامی کا آغاز کیا جبکہ آپ اس سے پہلے بھی تنظیموں اور انجمنوں کی صورت
میں دین کا کام کر رہے تھے۔ دعوتِ اسلامی کے قیام کے بعد لوگوں کو عملی زندگی کی
طرف راغب کرنے کے لئے آپ نے مختلف اچھے اور دینی کاموں کو عوام میں رائج کیا۔ دينِ
اسلام كی تبلیغ، عشقِ رسول کی ترویج اور پیغامِ الٰہی کی تشہیر کے لئے جو بھی اچھا
اور ایسا طریقہ اپنایا جائے جو قراٰن و حدیث کے احکامات کے خلاف نہ ہو اس کی تحسین
کی گئی ہے، چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:مَنْ سَنَّ فِي الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهٗ اَجْرُهَا، وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَ هٗ ، مِنْ
غَيْرِ اَنْ يَنْقُصَ مِنْ اُجُورِهِمْ شَيْءٌ یعنی جو اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رائج کرے گا اس کو اس
طریقے کو رائج کرنے کا بھی ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی جو اس کے
بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ
ہوگی۔(مسلم، ص 394،
حدیث: 2351 )حکیمُ الاُمّت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جن لوگوں نے علمِ فقہ، فنِ حدیث، میلاد شریف، عرسِ
بزرگاں، ذکرِ خیر کی مجالس، اسلامی مدرسے (اور ) طریقت کے سلسلے
ایجاد کئے انہیں قیامت تک ثواب ملتا رہے گا۔(مراٰۃ المناجیح،1/ 196)
امیرِ اہلِ سنّت
دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے مسلمانوں
میں جن اچھے کاموں کو رواج دیا اگر ان سب کا ذکر کیا جائے تو پوری کتاب بن سکتی
ہے، ان میں سے صرف پانچ کا ذکر کیا جاتاہے:
(1)لوگوں کو قراٰنِ
کریم کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے آپ نے اپنے مُحِبّین، متعلقین اور مریدین
کو تاکید فرمائی کہ فجر کی نماز کے بعد مسجد میں قراٰنِ پاک کی تین آیات ترجمہ و
تفسیر کے ساتھ تلاوت کریں یا سنیں۔ اور اس کام کو باقاعدہ تنظیم کے کاموں کا حصہ بنایا
گیا ۔
(2)قراٰنِ پاک
کی طرح احادیثِ مبارَکہ اور حقیقی اسلامی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے
مساجد میں نمازوں کے بعد درس دینے کا طریقہ رائج فرمایا، مساجد میں درس و بیان کا
طریقہ اگرچہ اسلاف ہی سے چلتا آرہا ہے لیکن اس انداز میں کثیر مساجد میں پابندی کے
ساتھ کہیں ایک نماز کے بعد اور کہیں دو نمازوں کے بعد درس کا سلسلہ جاری فرمانا یہ
آپ ہی کا فیضان ہے۔
(3)تبلیغِ دین کا ایک انداز جو پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت کا حصہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سفر کر کے
دوسری جگہ جاتے اوراپنے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو بھی بھیجا کرتے تھے۔ تبلیغِ دین کے لئے بانیِ دعوت
اسلامی حضرت علّامہ محمد الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس طریقہ کو باقاعدہ اور منظم انداز میں رائج فرمایا کہ
ہر ماہ تین دن کا مدنی قافلہ، ایک سال میں تیس دن اور عمر بھر میں ایک سال کا مدنی
قافلہ کرنے کا ذہن دیا اور اس کے علاوہ بڑے اور اہم مواقع پر مثلاً محرمُ الحرام،
ربیعُ الاوّل، عیدین اور وہ ایام جن میں سرکاری سطح پر دو یا اس سے زائد تعطیلات
آرہی ہوں، ان دنوں میں راہِ خدا میں سفر کرنے کا خصوصی ذہن دیتے ہیں بلکہ اسے
باقاعدہ نظام کے تحت رائج فرما دیا ہے اور بعض عاشقانِ رسول تو ایسے ہیں کہ انہوں
نے اپنی زندگیاں تبلیغِ دین کے لئے وقف کر دی ہیں جوکہ یقیناً امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی ترغیب و
تحریک ہی کا نتیجہ ہے۔
(4)کتاب پڑھنا، مطالعہ کرنا علم حاصل کرنے کا
بہت بڑا اور اہم ذریعہ ہے، بانیِ دعوتِ اسلامی نے ہر ہفتہ ایک مختصر رسالہ پڑھنے،
سننے کا طریقہ رائج فرمایا اور اس کی ترغیب و تشویق کے لئے پڑھنے سننے والوں کو
اپنی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔ مزید سونے پر سُہاگا یہ کہ جو پڑھنا لکھنا نہیں
جانتے اور کہیں اجتماعی صورت میں کسی سے سُن بھی نہیں سکتے ان کو بھی کتاب کے
فیضان سے محروم نہ رہنے دیا بلکہ ہر ہفتے مطالعہ کے لئے دئیے جانے والے رسالے کو
آڈیو کی صورت میں بھی جاری فرمایا جو کہ مختلف مبلغین کی آواز میں جاری ہوتا ہے۔ سب
سے پہلا رسالہ ”کراماتِ فاروقِ اعظم“ جو آپ نے مطالعہ کے لئے دیا اس کے پڑھنے اور
سننے والوں کی تعداد793 تھی اور اَلحمدُ لِلّٰہ تادمِ تحریر جو آخری رسالہ ”ڈرائیور
کی موت“ آپ نے مطالعہ کرنے کا فرمایا ہے اس کے پڑھنے اور سننے والے خوش نصیبوں کی
تعداد 41 لاکھ 602 سے بھی
بڑھ گئی ہے۔ تادم تحریر کل183رسائل مطالعہ کے لئے دئیے جاچکے ہیں۔
(5) عمومی طور پر شہروں اور گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے اندر دینی شعور کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، جبکہ گاؤں،
دیہات اور شہروں سے دور رہنے والے لوگ بعض دفعہ دینی تعلیمات سے محروم رہ جاتے
ہیں، تو دور اندیش اور صاحبِ حکمت و فراست ہستی بانیِ دعوتِ اسلامی نے اس ضرورت کو
بھی محسوس کیا اور خیر خواہیِ اُمّت کے پیشِ نظر اپنے چاہنے والوں کو ہفتے میں ایک
دن اپنے علاقے سے باہر دوسری مساجد اور گِرد و نَواح کے گاؤں وغیرہ میں جا کر دینی
تعلیمات عام کرنے کا ذہن دیا جو کہ اَلحمدُ لِلّٰہ باقاعدہ منظم انداز میں جاری
ہے۔
یہ صرف پانچ
طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تبلیغِ دین کے لئے بانیِ دعوتِ اسلامی نے رائج اور
عام فرمائے ہیں، اللہ ربُّ العزت کی رحمت سے امید ہے کہ آپ دامت بَرَکَاتُہمُ
العالیہ کی کوشش سے
جہاں جہاں تک دین کا پیغام پہنچا اور ان سے آگے جہاں تک اور جب تک دین کا پیغام و
تعلیمات پہنچتی رہیں گی ان سب کا ثواب حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری
دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کو بھی ملتا
رہے گا، اِنْ شآءَ اللہ۔
اللہ کریم اپنے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے اس مردِ قلندر، عظیم علمی و روحانی شخصیت کی عمر،
علم، عمل اور جُملہ اُمور و معاملات میں لاکھوں لاکھ برکتیں عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم