جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتے جا رہے ہیں اور
چونکہ موت کا وقت بھی کسی کو معلوم نہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ موت آنی ہی ہے اور
ہمیں اپنے رب کے حضور پیش کیا جائے گا اور نہ کہ ہم خود بلکہ ہمارے اعمال بھی اللہ
کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے تو اگر ہمارے اعمال اللہ کی ناراضی والے ہوئے تو
ہم کیا کریں گے اور ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب جہنم میں ڈال دیا گیا تو ہم کس کے در
پر جائیں گے؟ اس لیے ہمیں چاہیے کہ جو وقت ہمیں مل رہا ہے اس کو اللہ کی رضا والے
کاموں میں بسر کریں تاکہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور ہمیں بخش دے، ہم لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ رحمٰن ہے رحیم ہے تو یہ بھی درست ہے مگر جہاں وہ رحمٰن ہے وہاں وہ
قہار بھی ہے جہاں وہ رحم فرماتا ہے وہاں وہ پکڑ فرمانے پر بھی قادر ہے، تو ہمیں یہ
ہی چاہیے کہ ہماری جب تک زندگی ہے ہم اللہ کو راضی کرنے والے کاموں میں لگ جائیں، آئیے
ہم قرآن پاک کی روشنی میں دیکھتی ہیں کہ کون سے اعمال کر کے ہم اللہ کو راضی کر
سکتے ہیں:
فرامینِ الٰہی:
1۔ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) (پ 18، المؤمنون: 2) ترجمہ کنز الایمان: جو اپنی نماز میں
گڑگڑاتے ہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو اپنی نماز کو خشوع و خضوع سے پڑھتے
ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اس عمل کے ذریعے بھی ہم اللہ کو
راضی کر سکتی ہیں۔
2۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) (پ 18، المؤمنون: 3) ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو فضول
بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔
3۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) (پ 18، المؤمنون: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو زکوٰۃ
دینے کا کام کرتے ہیں۔
4،5۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) (پ 18، المؤمنون: 8) ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ اس آیت
میں دو اعمال کے متعلق ذکر فرمایا گیا کہ ایک تو وہ عمل ہے کہ بندہ امانت میں
خیانت نہ کرے اور اللہ کی رضا حاصل کر لے اور دوسرا یہ کہ وعدہ خلافی نہ کرے۔ یاد
رہے کہ امانتیں خواہ اللہ کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہدخدا کے ساتھ ہو یا
مخلوق کے ساتھ سب کی وفا لازم ہے۔
6۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) (پ 18، المؤمنون: 9) ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔اس آیت میں یہ فرمایا گیا
کہ وہ لوگ کامیاب ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ رضائے الٰہی پانے
کا اچھا ذریعہ ہے۔
7۔وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) (پ 18، المؤمنون: 5) ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: بات بولو تو سچ
بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو، اپنی
شرمگاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نگاہوں کو پست کرو اور اپنے ہاتھوں کو روکو۔ (مسند
امام احمد، 8/412، حدیث: 22821) اس میں جنت کی ضمانت دی گئی تو ظاہر ہے کہ جو عمل
کر کے ہم جنت حاصل کر سکتے ہیں وہ رضائے الٰہی پانے کا بھی بہترین ذریعہ ہے،
کیونکہ اللہ کے راضی ہونے سے ہی ہم داخلِ جنت ہوں گے، اللہ رحم کرنے پر آئے تو وہ
ایک چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر بھی بخش سکتا ہے اور اگر غضب فرمانے پر آئے تو چھوٹے
سے چھوٹے گناہ پر بھی پکڑ فرمانے پر قادر ہے، اس لیے ہم نیت کرتی ہیں کہ اللہ کی
ناراضی والے تمام کاموں کو چھوڑ کر نیکیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گی۔ اللہ
سے دعا ہے کہ اے اللہ تو ہمیں راضی فرما اور ہم سے راضی ہوجا۔ آمین