از: بنت کریم
عطاریہ مدنیہ معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز خوشبوئے عطار واہ کینٹ
صحیح مسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ: لَعَنَ اللّٰهُ الْوَاشِمَاتِ
وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ
الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ۔ ([i])یعنی
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:گودنے و گدوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے و نوچوانے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے
درمیان فاصلہ کرنے والیوں اور اللہ پاک کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر اللہ
پاک کی لعنت ہو۔
شرحِ حدیث
اللہ
پاک کے کسی پر لعنت فرمانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک نے اسے اپنی بارگاہ سے دھتکار دیا اور اپنی رحمت سے دور کر
دیا ہے۔(2)چنانچہ علمائے کرام نے مذکورہ تمام کاموں کو گناہِ
کبیرہ قرار دیا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والیوں پر اللہ پاک کی طرف سے لعنت آئی ہے
اور لعنت کبیرہ گناہوں کی علامات میں سے ہے۔(3) ذیل میں حدیث پاک کی
شرح میں اس بات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ عورتوں پر لعنت کی وجوہات
کیا ہیں اور اب اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
الواشمات و المستوشمات:
یعنی
وہ عورتیں جو جسم کو گودتی و گدواتی ہیں۔ مراد سُوئی وغیرہ سے جسم میں چھید لگا کر
اس میں رنگ یا سرمہ بھرنا ہے، آج کل اسے ٹیٹوز (Tattoos)
بنانا بھی کہا جاتا ہے۔ یاد رکھئے! جسم پہ مختلف ڈیزائن کے ٹیٹوز بنوانا شرعاً
ناجائز و ممنوع ہیں۔ اس میں اللہ پاک کی بنائی ہوئی چیز کو تبدیل کرنا ہے اور اللہ
پاک کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلی کرنا ناجائز و حرام اور شیطانی
کام ہے۔
اگر ٹیٹوز بنوا لیے ہوں تو کیا کریں؟
اگر
کسی نے اپنے جسم پر اس طرح نام یا ڈیزائن بنوا لیے تو اگر بغیر شدید تکلیف و تغییر کے
اسے ختم کروانا ممکن ہو تو توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ ختم کروانا لازم ہے ورنہ
اس کو اسی حال میں رہنے دے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتی رہے۔(4)امیرِ
اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ اسے مٹانے کا آسان
طریقہ ایجاد ہو گیا ہے۔ ایک ایسا کیمیکل ہے جس سے نہ تو کوئی زخم ہوتا ہے نہ کھال کاٹنے کی نوبت آتی ہے اور یہ مٹ جاتا
ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر صاف کروانا ہو گا۔(5)
النامصات و المتنمصات:
یعنی
وہ عورتیں جو ابرو کے بال نوچ کر باریک کرتی و کرواتی ہیں۔چنانچہ عورت کے چہرے پر
اگر بال آ گئے ہوں تو عام حالت میں اس کے لیے یہ بال صاف کرانا مُباح و جائز ہے، اس
میں کوئی حرج نہیں اور یہ کام اگر شوہر کے لیے زینت کی نیت سے ہو تو جائز ہونے کے
ساتھ ساتھ مستحب بھی ہے۔ البتہ ابرو بنوانا اس حکم سے مُسْتَثْنیٰ (جدا)ہے کہ صرف
خوبصورتی و زینت کے لیے ابرو کے بال نوچنا اور اسے بنوانا ناجائز ہے۔ حدیثِ پاک
میں ابرو بنوانے والی عورت کے بارے میں لعنت آئی ہے لہٰذا آجکل عورتوں میں ابرو
بنوانے کا جو رواج چل پڑا ہے، یہ ناجائز ہے، اس سے ان کو باز آنا چاہئے۔
ابرو بنوانے کی ایک جائز صورت:
ہاں!
ایک صورت یہ ہے کہ ابرو کے بال بہت زیادہ بڑھ چکے ہوں، بھدے (بُرے)معلوم ہوتے ہوں
تو صرف ان بڑھے ہوئے بالوں کو تراش کر اتنا چھوٹا کر سکتی ہیں کہ بھدا پن دور ہو
جائے، اس میں حرج نہیں۔(6)
ابرو بنوانے والیوں کے جھوٹے حیلے بہانے:
بعض
خواتین طرح طرح کے جھوٹے حیلے بہانے بنا کر اپنے دل کو منا لیتی ہیں مثلاً ہم تو
شوہر کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرتی ہیں، شوہر آئی بروز بنوانے کا کہتا ہے اس لیے
بنواتی ہیں وغیرہ۔
یاد
رہے! جس کام سے شریعت نے منع کیا ہے وہ منع ہی رہے گا۔ شوہر بلکہ کسی کے بھی حکم
دینے سے اس کام کا کرنا جائز نہیں ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ پاک کی نافرمانی میں
مخلوق کی بات یا حکم ماننا جائز نہیں۔ شوہر کی فرمانبرداری بھی صرف انہی کاموں میں
کی جائے گی جو شریعت کے خلاف نہ ہوں۔
یونہی
بعض خواتین آئی بروز بنواتی ہیں اور عذر یہ پیش کرتی ہیں کہ بال بڑے ہو گئے تھے،
دیکھنے میں اچھے نہیں لگتے تھے۔ حالانکہ صرف بالوں کا بڑھ جانا عذر نہیں بلکہ
اجازت اسی صورت میں ملے گی جب اتنے بڑھ جائیں کہ بھدے (بُرے) معلوم ہوں۔ اس صورت
میں بھی صرف بالوں کو اتنا چھوٹا کروانے کی اجازت ہے کہ بھدا پن دور ہو جائے، نہ
کہ خوبصورت دکھنے کے لیے باریک کروانے کی۔
المتفلجات:
یعنی
وہ عورتیں جو خوبصورتی کے لیے ریتی وغیرہ سے دانتوں کو کشادہ کرتی ہیں۔ علامہ یحییٰ
بن شرف الدین نووی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بعض
بوڑھی عورتیں اپنی عمر کم ظاہر کرنے اور دانتوں کو خوبصورت بنانے کے لیے مخصوص دانتوں کے درمیان معمولی سی کشادگی کرا لیتی ہیں۔ یہ کام کرنا اور کرانا
دونوں حرام ہیں، کیونکہ اس میں اللہ پاک کی بناوٹ کو تبدیل کرنا ہے۔ البتہ علاج کی
غرض یا دانتوں میں موجود عیب دور
کرنے کے لئے ایسا کرنے میں کوئی حرج
نہیں۔(7)
عورت کا زینت اختیار کرنا کیسا:
عورت
کے لیے زینت حاصل کرنا جائز ہے ،بلکہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے شوہر کے
لیے زینت اختیار کرنا تو مستحب و کارِ ثواب ہے۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:عورت کا اپنے شوہر کے لیے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعِثِ اجرِ
عظیم اور اس کے حق میں نمازِ نَفل سے افضل ہے۔ بعض صالحات کہ خود اور ان کے شوہر
دونوں صاحبِ اولیائے کرام سے تھے، ہر شب بعد نمازِ عشا پورا سنگار کر کے دلہن بن
کر اپنے شوہر کے پاس آتیں، اگر انہیں حاجت ہوتی تو حاضر رہتیں، ورنہ زیور و لباس
اتار کر مصلے بچھاتیں اور نماز میں مشغول ہو جاتیں۔ (8)کنواری لڑکی بھی
شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے زینت کر سکتی ہے۔ لیکن زینت انہی چیزوں کے ذریعے
حاصل کی جائے جن کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔شریعت کی منع کردہ چیزوں میں کوئی
زینت نہیں ،بلکہ ایسی زینت تو آخرت میں باعثِ وبال ہے۔
زینت کی بعض جائز صورتیں:
زینت
کی بعض جائز صورتیں یہ ہیں:¡حلال اشیا کے ذریعے میک اپ کرنا
¡آرٹیفیشل
بال اور پلکیں لگانا جبکہ انسان یا خنزیر کے بالوں سے بنی ہوئی نہ ہوں البتہ وضو و
غسل کرنے کے لئے ان پلکوں کا اتارنا ضروری ہو گا، کیونکہ آرٹیفیشل پلکیں عموماً
گوند وغیرہ کے ذریعے اصلی پلکوں کے ساتھ چپکا دی جاتی ہیں اور انہیں اتارے بغیر
اصلی پلکوں کو دھونا ممکن نہیں، جبکہ وضو و غسل میں اصلی پلکوں کا ہر بال دھونا
ضروری ہے ¡دھاگے
یا اُون کی بنی ہوئی چُٹیا لگانا ¡کندھوں سے نیچے بالوں کی نوکیں
وغیرہ کٹوا کر برابر کرنا ¡بازو، ہاتھ، پاؤں اور ٹانگوں کے
بال اتارنا ¡ابرو
کے علاوہ چہرے کے بال صاف کرنا ¡آرٹیفیشل جیولری پہننا۔
زینت کی بعض ناجائز صورتیں:
زینت
کی بعض ناجائز صورتیں یہ ہیں:¡مردانہ طرز کے بال کٹوانا (فاسقہ
عورتوں کی طرح بطورِ فیشن بال کٹوانا بھی منع ہے) ¡ اَبرو بنوانا ¡انسان یا
خنزیر کے بالوں سے بنی ہوئی وِگ یا پلکیں استعمال کرنا ¡بالوں میں
سیاہ رنگ کا خضاب لگانا۔
[i]مسلم، ص905،حدیث:5573 2
اصلاحِ اعمال،ص419 3 جہنم
میں لے جانے والے اعمال، 1/ 459 ماخوذ اً 4مختصر فتاویٰ اہلِ سنت،ص 208 5سردی
سے بچنے کے طریقے،ص12 6 مختصر
فتاویٰ اہلِ سنت،ص 192 ملتقطاً 7شرح مسلم للنووی،الجزء:7،14/106ماخوذاً 8فتاویٰ
رضویہ،22/126