پیارے آقاﷺ بہت ہی خشوع وخضوع کے ساتھ رمضان المبارک
گزارا کرتے تھے۔ آئیے! رمضان کی فضیلت حدیثِ مبارک سے سنتی ہیں اور رمضان کیا ہے یہ
بھی سنتی ہیں۔
حدیثِ مبارک : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبیِ
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس مہینے کا نام رمضان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو
جلا دیتا ہے۔
(کنز العمال،جز: 8،4 / 217،حدیث:23683)
حدیثِ مبارک:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،حضور پاکﷺ کا فرمان ہے:پانچوں نمازیں
اور جمعہ اگلے جمعہ تک اور ماہِ رمضان اگلے ماہِ رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب
تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے ۔( مسلم، ص 144،حدیث:233)
پیارے آقا ﷺ رمضان کیسے گزارتے تھے؟اس کے متعلق حدیثِ
مبارک پیش خدمت کرتی ہوں۔ ہمارے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا ﷺ اس مبارک مہینے
کی آمد کے ساتھ ہی عبادتِ الٰہی میں بہت زیادہ مگن ہو جایا کرتے تھے۔چنانچہ اُم
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہافرماتی ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سرتاج،صاحبِ معراجﷺالله پاک کی عبادت کیلئے
کمر بستہ ہوجاتے اور سارا مہینا اپنے بستر منور پر تشریف نہ لاتے۔ (در منثور،1/449)
ایک اور جگہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب ماہِ رمضان تشریف
لاتا تو حضور اکرم، نورِ مجسمﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ نماز کی کثرت
فرماتے اور خوب گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔
(شعب الایمان،3/310،حدیث:3625)
پیارے آقا ﷺ
رمضان میں خوب خیرات کرتے تھے ۔ چنانچہ عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر
سائل کو عطا فرماتے۔
(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )
ہمارے پیارے آقا ﷺ بہت زیادہ سخی تھے۔چنانچہ حضرت عبد
اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللهﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی ہیں اور
سخاوت کا دریا سب سے زیادہ اس وقت جوش پر ہوتا جب رمضان میں آپ سے جبرئیلِ امین علیہ السلام ملاقات کے لئے حاضر ہوتے۔جبرئیلِ امین علیہ
سلام رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کیلئے حاضر ہوتے اور رسولِ کریمﷺان کے
ساتھ قرآنِ عظیم کا دور فرماتے۔ پس رسول الله ﷺ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر
کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔
(بخاری،1/9،حدیث: 6)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے
اللہ پاک کے محبوبﷺ کو کبھی اسی طرح نہیں دیکھا کہ آپ نے افطار سے پہلے نمازِ مغرب ادا فرمائی ہو، چاہیے
ایک گھونٹ پانی ہی ہوتا۔آپ اس سے افطار
فرماتے۔ (ترغیب و ترہیب،2/91 ،حدیث: 91)
سرکارِ مدینہﷺ جب رمضان المبارک کے آخری دس دن آتے
تو عبادت پر کمر باندھ لیتے،ان میں راتوں کو جاگا کرتے اور اپنے اہلِ خانہ کو جگایا
کرتے۔ (مسلم،ص462،حدیث: 2787)
رمضان البارک کی برکتوں کے کیا کہنے!یوں تو اس کی
ہر ہرگھڑی رحمت بھری اور ہرہر ساعت اپنے دامن میں بے پایاں برکتیں لئے ہوئے ہے،مگر
اس ماہِ محترم میں شبِ قدر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، اسے پانے کے لئے ہمارے پیارے
آقاﷺنے ماہِ رمضان کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا ہے اور آخری دس دن کا بہت زیادہ
اہتمام تھا ،یہاں تک کہ ایک بار کسی خاص عذر کے تحت آپ رمضان المبارک میں اعتکاف
نہ کر سکے تو شوال المکرم کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔ (بخاری،1/ 671، حدیث:
2031)ایک مرتبہ سفر کی وجہ سے آپ کا
اعتکاف رہ گیا تو اگلے رمضان شریف میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔(ترمذی،2/212، حدیث:803)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ہمارے پیارے آقاﷺ نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار
فرماتے،تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوریں یعنی چھوہاروں سے اور یہ بھی نہ
ہوتیں تو چند چلوپانی پیتے۔( ابو داود،2/447 ،حدیث: 2356)
ماشاءاللہ! ہمارے پیارے آقا ﷺ رمضان کا کتنا اہتمام
فرماتے تھے!اللہ پاک ہمیں بھی پیارے آقا ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ہمیں سنتِ مصطفےٰ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین