وقت
زندگی ہے اسے بہترطور پر استعمال کرکے ہم کامیاب ہوسکتے ہیں،اس لیے ضروری ہے کہ ہم
وقت کی اہمیت کو سمجھیں،وقت ضائع کرنے والے عناصر کا جائزہ لیں ،وقت کو بہتر
استعمال کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کریں اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا
احساس کریں۔محبوب کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہاں ہر معاملے میں ہماری راہنمائی
فرمائی ہے وہیں وقت کی اہمیت اور قدر کو
بھی اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا:
اِغْتَنِمْ خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَکَ قَبْلَ
ہَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفَرَاغَکَ
قَبْلَ شُغْلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ
ترجمہ:پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو (۱)جوانی کو بڑھاپے
سے پہلے(2)صحت کو بیماری سے پہلے (3)مالداری کوتنگدستی سے پہلے(4) فرصت کومشغولیت
سے پہلے اور (5) زندَگی کوموت سے پہلے ۔(اَلْمُسْتَدْرَک ج۵ ص۴۳۵
حدیث ۷۹۱۶ دارالمعرفۃ بیروت)
''دن'' کا اعلان:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت ضائع کرنے
والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: روزانہ صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُس
وقت "دن" یہ اعلان کرتا ہے: اگر آج کوئی اچّھا کام کرنا ہے تو کرلو کہ
آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں گا۔(شُعَبُ
الْاِیْمَان ج۳ ص۳۸۶حدیث۳۸۴۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک اور مقام پر فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے
میں بَہُت سے لوگ دھوکے میں ہیں ، ایک صحّت اور دوسری فراغت۔(صَحِیحُ البُخارِیّ ج۴
ص۲۲۲حدیث ۶۴۱۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
افسوس کرنے والا جنتی
اگر کوئی وقت کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے ضائع کرتا ہے تو جنت میں جانے کے
باوجود بھی افسوس کرے گا چنانچہ حدیث پاک میں فرمایا گیا:"اہلِ جنّت کوکسی
چیز کا بھی افسوس نہیں ہوگا سوائے اُس ساعت (یعنی گھڑی ) کے جو (دنیا میں)اللہ پاک کے ذِکر کے بِغیر گزرگئی۔"(صَحِیحُ البُخارِیّ ج۴
ص۲۲۲حدیث ۶۴۱۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
وقت کی اہمیت کو سمجھنے والے:
آئیے اسلاف میں سےچند ہستیوں کے واقعات پڑھئیے تاکہ ہمارے دلوں میں بھی وقت کی اہمیت
مزید اُجاگر ہو اور ہم بھی اسے زیادہ سے زیادہ قیمتی بنائیں،چنانچہ
1 حافِظ
اِبن عَساکِر” تَبْیِیْنُ کَذِبِ الْمُفْتَرِی “میں فرماتے ہیں: (پانچویں صدی کے مشہور بزرگ) حضرت
سیِّدُنا سلیم رازی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ کا قَلَم جب لکھتے لکھتے گھس جاتا تو قَط لگاتے (یعنی نوک تراشتے
)ہوئے(اگر چِہ دینی تحریر کیلئے یہ بھی ثواب کا کام ہے مگر ایک پنتھ دو کاج کے
مِصداق) ذکرُ اﷲ شُروع کردیتے تاکہ یہ وَقت صِرف قَط لگاتے
ہوئے ہی صَرف نہ ہو!
2 آٹھویں صَدی کے مشہور شافِعی عالم
سیِّدُنا شمس الدّین اَصبہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں حافِظ ابنِ حجر رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس خوف سے کھانا کم تناوُل فرما تے تھے کہ زیادہ کھانے سے بَول وبَراز کی
ضَرورت بڑھے گی اور بار باربیت الخلاء جاکر وَقت صَرف ہوگا! (الدررالکامنۃ للعسقلانی ج۴
ص۳۲۸ داراحیاء التراث العربی
بیروت)
3 حضرتِ
علامہ ذہبی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ” تذکِرۃُ
الحُفَّاظ “میں خطیبِ بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :''آپ راہ چلتے بھی
مطالَعَہ جاری رکھتے۔'' (تاکہ آنے جانے کا وقت بے کار نہ گزرے) :۔۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۳ ص۲۲۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
4 حضرتِ
جنید بغدادی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ وقتِ نَزْع قرآنِ پاک پڑھ رہے
تھے، ان سے اِستفسار کیا گیا :اس وَقت میں بھی تلاوت؟ اِرشاد فرمایا: میرا نامہ
اَعمال لپیٹا جارہا ہے تو جلدی جلدی اس میں اِضافہ کررہا ہوں۔(صید الخاطر لابن الجوزی ص۲۲۷
،مکتبہ نزار مصطفٰے الباز)