اس دنیا میں ہر انسان کا وجود اس کے والدین کے سبب سے ہے، والدین میں سے ہر ایک ہی عزت و تعظیم کے لائق ہیں، دونوں کے ہی بہت حقوق ہیں مگر ایک اعتبار سے والدہ کا حق والد پر مقدم ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔ (لقمان: 14)

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:ماں کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے: یہاں ماں کے تین درجے بیان فرمائے گئے ایک یہ کہ اس نے کمزوری پر کمزوری برداشت کی،دوسرا یہ کہ اس نے بچے کو پیٹ میں رکھا،تیسرا یہ کہ اسے دودھ پلایا،اس سے معلوم ہوا کہ ماں کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ماں کی باپ سے تین درجے زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں آکر عرض کی:میری اچھی خدمت کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایاتمہاری ماں۔اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، ’’تمہاری ماں ‘‘،اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں۔“عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاراباپ“۔(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

ماں کاحق باپ کے حق پرمقدم ہے: اعلیٰ حضرت، مُجدّدِدین وملت،شاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:اولاد پرماں باپ کا حق نہایت عظیم ہے اور ماں کاحق اس سے اعظم، قَالَ اللہ تَعَالٰی:وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-ترجمہ: اور ہم نے تاکید کی آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کی اسے پیٹ میں رکھے رہی اس کی ماں تکلیف سے اور اسے جنا تکلیف سے اور اس کاپیٹ میں رہنا اور دودھ چھٹنا تیس مہینے میں ہے۔

اس آیہ کریمہ میں رب العزت نے ماں باپ دونوں کے حق میں تاکید فرماکر ماں کو پھر خاص الگ کرکے گنا اور اس کی ان سختیوں اور تکلیفوں کو شمار فرمایا جو اسے حمل وولادت اور دوبرس تک اپنے خون کاعطر پلانے میں پیش آئیں جن کے باعث اس کاحق بہت اَشد واَعظم ہوگیا مگر اس زیادت کے یہ معنی ہیں کہ خدمت میں، دینے میں باپ پرماں کوترجیح دے مثلاً سوروپے ہیں اور کوئی خاص وجہ مانعِ تفضیلِ مادر (یعنی ماں کو فضیلت دینے میں رکاوٹ) نہیں توباپ کو پچیس دے ماں کو پچھتر، یاماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا توپہلے ماں کو پلائے پھرباپ کو، یادونوں سفر سے آئے ہیں پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھرباپ کے، وَ عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاس۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، 24/387-390، ملتقطاً)

اسی طرح احادیث میں بھی والدہ کی فرمابرداری کے متعلق فرمایا گیا ان میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں:

(1) ایک شخص نے عرض کیا یارسول الله میرے اچھے برتاوے کا زیادہ حقدار کون ہے فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہارا باپ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہار اباپ پھر تمہارا قریبی پھر قریبی۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6، حدیث نمبر:4911)

(2) حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں آدمی کو وصیت کرتا ہوں اس کے ماں کے حق میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کی حق میں وصیت کرتا ہوں اس کے باپ کے حق میں۔ (المسند جلد 6،صفحہ: 463 حدیث: 18812)

(3)اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے گھر بار اور مال سے نکل جانے کا حکم کریں۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:61)

(4) جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشہاب103/1 حدیث: 119)

(5) جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما گویا جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو چوما۔

حضرت عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت استاذ ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی میں نے رات خواب میں دیکھا کہ آپ کی داڑھی جواہر و یاقوت سے مرصع (یعنی سجی ہوئی) ہے۔ تو آپ نے جواب دیا تو نے سچ کہا ہے کیونکہ رات میں نے اپنی ماں کے قدم چومے تھے۔

(6) ماں باپ تیری دوزخ اور جنت ہیں۔ (ابن ماجہ:1،86/4 حدیث:3662)

یعنی تیرے ماں باپ تیرے لیے جنت دوزخ میں داخلہ کا سبب ہیں کہ انہیں خوش رکھ کر تو جنتی بنے گا انہیں ناراض کر کے دوزخی۔ (مراة المناجیح،540/6)

(7) جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اس کے لئے ہر منظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: اگر چہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے؟ فرمایا نعم اللہ اکبر و اطیب یعنی ہاں اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ پاک ہے۔ (شعب الایمان،186/6 حدیث 7856)

(8)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آخری نبی، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا میں جنت میں گیا تو میں نے تلاوت قرآن کی آواز سنی میں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ جواب دیا گیا: یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ بھلائی ایسی ہوتی ہے بھلائی ایسی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ سب سے زیادہ اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ (مشکاة المصابیح،206/2 حدیث: 4926)

والدہ کی فرمانبرداری میں جو کردار ہمارے اسلاف کا رہا اس کی مثال وہ خود ہیں۔ چنانچہ حضرت بایزید بِسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سردیوں کی ایک سخت رات میری ماں نے مجھ سے پانی مانگا، میں گلاس بھر کر لے آیا مگر ماں کو نیند آگئی تھی، میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پانی کا گلاس لئے اس انتظار میں ماں کے قریب کھڑا رہا۔ کہ بیدار ہوں تو پانی پیش کروں کھڑے کھڑے کافی دیر ہو چکی تھی اور گلاس سے کچھ پانی بہ کر میری انگلی پر جم کر برف بن گیا تھا۔ بہر حال جب والدہ محترمہ بیدار ہوئی تو میں نے گلاس پیش کیا برف کی وجہ سے چپکی ہوئی انگلی جوں ہی پانی کے گلاس سے جدا ہوئی ان کی کھال ادھڑ گئی اور خون بہنے لگا، ماں نے دیکھ کر پوچھا: یہ کیا ؟ میں نے سارا ماجرا عرض کیا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی: اے اللہ! میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔(نزہۃ المجالس الجز الاول 261/1)

اللہ پاک سب مسلمانوں کو اپنے والدین کا فرما نبردار بنائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔