انسان کو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں افضل اور اشرف مخلوق بنایا ہے۔ اور والدین کو انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنایا ہمارا وجود والدین کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ پارہ 15 سورۃ بنی اسرائیل آیت 15 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23) ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور اُف تک بھی نہ کہو،اور ماں کی فرمانبرادری کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن پاک پارہ 21 سورۃ لقمان آیت 14 میں ارشاد فرماتاہے: وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(14) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔

احادیث میں والدین میں والدہ کا مقام و مرتبہ اور اس کی تعظیم زیادہ رکھی گئی ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آئی اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ نیکی کروں تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اپنی ماں کے ساتھ اس نے کہا پھر کس کے ساتھ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ اس نے پھر کہا کس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ اس نے پھر عرض کی حضور کس کے ساتھ تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اپنے والد کے ساتھ۔( مجمع الزوائد ج 8 ص139 )

(2) حضرت طلحہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی پاک کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنے کا ارداہ رکھتا ہوں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے میں نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اپنی ماں کے قدموں سے چمٹے رہو وہی تمہاری جنت ہے۔ (مجمع الزوائد ج 8ص 138 )

(3) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اپنی ماں کے پیروں سے چمٹے رہو جنت وہی ہے۔( کنزالعمال ج 16 ص 463)

(4) ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا اُن پرڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا!میں اپنی ماں کو گَردن پر سُوار کرکے چھ (6) مِیل تک لے گیاہوں،کیا میں ماں کے حُقُوق سے فارِغ ہوگیاہوں؟سرکارِ نامدار، مکی مدنی سرکارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَردکے جس قَدَر جھٹکے اُس نے اُٹھائے ہیں،شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(ابن ماجہ، کتا ب الادب، باب بر الوالدین 4/186،رقم:3662)

لہٰذا ہمیں اپنے ماں باپ کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور ہمیں ان احادیث سے یہ درس ملتا ہے کہ سب سے زیادہ جس کی تعظیم و فرمانبرداری کی جائے وہ ماں ہے اور ماں کا حق مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کی تربیت حمل، وضع حمل، اور پرورش کے دیگر مراحل طے کرنے میں ماں کو زیادہ مشقت ہوتی ہے ۔

اللہ عزوجل کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔