عتیق الرحمن عطاری (درجۂ
سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان مکہ راولپنڈی، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیو! ماں وہ انمول اور عظیم ہستی ہے جس کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ماں وہ
ہستی ہے جس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ماں اپنی اولاد سے سب سے بڑھ کر
پیار کرتی ہے وہ اپنی اولاد سے وفاؤں کا بدلہ نہیں چاہتی لہٰذا جتنے ایک ماں کے
احسانات ہیں اتنا ہی زیادہ تاکید کے ساتھ ہمیں قرآن کریم اور احادیث کریمہ میں اپنی
ماں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے، بھلائی کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے
کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے احادیث
طیبہ میں انسان سے ماں کے ساتھ بھلائی کرنے پر جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
ماں کے ساتھ
بھلائی اور فرمانبرداری کرنے کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں۔
اچھے
برتاؤ کی حقدار ماں ہے:1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک
شخص نے عرض کیا یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے اچھے برتاؤ کا
زیادہ حقدار کون ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں
اس نے پھر عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری
ماں عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہارا باپ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: تمہاری
ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہار اباپ پھر تمہارا قریبی پھر قریبی۔
شرح حدیث: اس
سے معلوم ہوا کہ ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے کیونکہ ماں بچے پر تین احسان
کرتی ہے پیٹ میں رکھنا،جننا،پرورش کرنا باپ صرف پرورش ہی کرتا ہے۔ بیٹا ماں باپ
دونوں کی خدمت کرے مگر مقابلہ کی صورت میں ادب و احترام باپ کا زیادہ کرے خدمت ماں
کی زیادہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان سے نرم اور نیچی آواز سے کلام کرے
مالی و بدنی خدمت کرے یعنی اپنے نوکروں سے ہی ان کا کام نہ کرائے بلکہ خود کرے ان
کا ہر جائز حکم مانے انہیں نام لے کر نہ پکارے اگر وہ غلطی پر ہوں تو نرمی سے ان
کی اصلاح کرے اگر قبول نہ کریں تو ان پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:6, حدیث نمبر:4688، ص 353،قادری پبلشر)
کافرہ
ماں سے بھی حسن سلوک کرو: حضرت سیدتنا اسماء بنت ابی بکر رضی
اللہ تعالٰی عنہما سےروایت ہے فرماتی ہیں: رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے زمانے میں میرے پاس میری ماں آئی اور اس وقت وہ مشرکہ تھی تو میں نے
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کرتے ہوئے عرض کی ’’میری ماں
میرے پاس آئی ہے اور اسے کچھ طمع ہے کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں ؟
‘‘ارشادفرمایا: ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔
شرح حدیث:
معلوم ہوا کہ کافر و مشرک ماں باپ کی بھی خدمت اولاد پر لازم ہے۔
حدیث پاک سے ماخوذ چند فوائد:عَلَّامَہ بَدْرُ
الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْغَنِی فرماتے ہیں: اس حدیث پاک سے چند
فوائد حاصل ہوئے:
(1) جس طرح مسلمان ماں سے صلہ رحمی کرنا جائز ہے
اسی طرح کافرہ ماں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنا جائز ہے۔
(2) یہ حدیث
پاک اُن علماء کی مستدل (یعنی دلیل) ہے کہ جو مسلمان بیٹے پر کافر ماں باپ کا نفقہ
واجب کرتے ہیں۔
(3) رشتہ
داروں سے ملاقات کے لیے سفر کرنا جائز ہے۔
(4) اِس حدیث پاک میں سَیِّدتُنا اسماء رضی اللہ
عنہا کی فضیلت ہے کہ انہوں نے کافر ماں سے صلہ رحمی کرنے کے بارے میں غورو فکر کیا
اور یہی آپ کی شانِ عظیمی کے لائق تھا کہ آپ سَیِّدُنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی
بیٹی اور حضرتِ سَیِّدُنا زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ ہیں۔
(فیضان رياض الصالحین,حدیث نمبر:312، ص 609، المدینة العلمیہ)
والدہ
کی خدمت کو لازم پکڑو:حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ان کے والد جاہمہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
عرض کیایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرا جہاد میں جانے کا ارادہ
ہے میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا کیا تیری ماں ہے؟عرض کیا ہاں۔ فرمایا اس کی خدمت اپنے اوپر لازم
کر لے کہ جنت ماں کے قدموں کے تلے ہے۔(مسند للإمام أحمد بن حنبل، حدیث:15538، ص
1046، مکتبہ دار السلام)
ماں
کے ساتھ بھلائ کرنے کی جزاء:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ وسلَّم نے فرمایا: میں جنت میں گیا، اس میں قرآن پڑھنے کی
آواز سنی،میں نے پوچھا یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان
ہیں۔ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے
احسان کا، یہی حال ہے احسان کا، حارثہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے ۔(بہار
شریعت،جلد 3،حصہ 16، باب سلوک کرنے کا بیان، ص 552، المدینۃ العلمیہ)
ماں
سے بھلائی کرنے کی تاکید: حضرت ابو سَلامہ سَلامی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں آدمی کو اپنی ماں کے
ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کرنے کی
وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں
آدمی کو اپنے باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے مولیٰ کے
ساتھ جس کا وہ والی ہو بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ اس کو اُس سے تکلیف ہی
کیوں نہ پہنچی ہو۔
شرح حدیث:عربی میں مولیٰ کا لفظ آزاد کردہ غلام
یا دوست یا رشتے دار یا ساتھی سبھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، یہاں کوئی بھی معنی
مراد لے سکتے ہیں۔ اگرچہ اس سے تکلیف پہنچے لیکن اس کےبدلے میں تکلیف نہ دے بھلائی
تو یہی ہے کہ برائی کے بدلے نیکی کرے، اور جو اپنے سے رشتہ توڑے اس سے رشتہ جوڑے۔ (سنن
ابن ماجہ، آداب کا بیان، والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا باب، جلد 2، ص 936، ح
3657، مکتبة البشری)
لہٰذا ہمیں
بھی چاہیے ہم اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کریں ان کے ہر حکم کو مانیں ان کو(اُف)تک
بھی نہ کہیں،ان کو آتے دیکھ کر باادب کھڑے ہوجائیں۔
اللہ کریم
ہمیں اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم
النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔