اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ (24) ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:24)

اس آیاتِ مُبارَکہ کے تحت حضرت علّامہ مَولانا سَیِّدْ مُفتی محمد نعیمُ الدِّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب والِدَین پر ضُعْف (کمزوری) کا غَلَبہ ہو، اَعضاء میں قُوَّت نہ رہے اور جیسا تُو بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ آخرِ عُمْر میں تیرے پاس ناتُواں(کمزور)رہ جائیں۔ اِس لئے بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ اِلٰہی میں اُن پر فَضْل و رَحمت فرمانے کی دُعا کرے اور عَرض کرے کہ یاربّ!میری خدمتیں اُن کے اِحسان کی جَزا (بدلہ)نہیں ہو سکتیں تُو اُن پر کرم کر کہ اُن کے اِحسان کا بدلہ دے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ماں ہی وہ مہربان ہستی ہے جو اَولاد کے لئے رو رو کر دُعائیں کرتی ہے،ماں کی دُعا جنّت میں لے جاتی ہے، ماں کی دُعاربِّ کریم کا فرمانبردار بناتی ہے،ماں کی دُعا بُرائیوں سے بچاتی ہے،ماں کی دُعا اَولاد کو مقامِ وِلایت تک پہنچا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی والدہ کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

والدہ کی فرمانبرداری پر پانچ آحادیث ملاحظہ فرمائیں

اَلْحَدِيْثُ الْاَوَّلُ:

وَعَنْ ابی ہریرة رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ اِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِيْ قَالَ: اُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ قَالَ: اُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ قَالَ: اُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ قَالَ: اَبُوْكَ ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: ’’یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نےعرض کی: ’’ پھر کون؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ارشادفرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ ارشادفرمایا: ’’تمہارا باپ۔(مسلم: کتاب البر والصلة والآداب، جلد4/رقم:2548)

اَلْحَدِيْثُ الثَّاْنِى:

عن ابي هريرة لَوْ ادرَكْتُ وَالِدَيّ اوْ احَدَهُما وَقَدْ افْتَتَحْتُ صَلاةَ العشَاء وَقَرَأتُ الفَاتِحَةَ فَدَعَتْنِى امَّى يَا مُحَمَّدُ لاجَبْتُها لَبَّيكِ ترجمہ: حضرت ابو ہريره سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر میں اپنے ماں باپ یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی پاتا اور میں نماز عشاء کو شروع کر کے فاتحہ بھی پڑھ چکا ہوتا تو میری ماں مجھے پکارتی (یَا مُحَمَّدُ) اے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو ضرور میں جواب میں کہتا: لبیک۔ اے میری ماں میں حاضر ہوں۔(جامع لکبیر للسیوطی، 75/7، رقم: 17847)

اَلْحَدِيْثُ الثالث:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ رَجُلٍ يَنْظُرُ اِلَى اُمِّهِ رَحْمَةً لَهَا اِلَّا كَانَتْ لَهُ بِهَا حَجَّةٌ مَقْبُولَةٌ مَبْرُورَةٌ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاِنْ نَظَرَ اِلَيْهَا فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ قَالَ وَاِنْ نَظَرَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ اَلْفِ مَرَّةٍ فَاِنَّ اللَّهَ اَكْثَرُ وَاَطْيَبُ ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی ماں کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے مگر یہ کہ اس کے لیے اسی فعل کی وجہ سے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، عرض کی کہ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ اگرچہ اس کی طرف دن میں 100 مرتبہ بھی دیکھے تو مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ دن میں ایک لاکھ مرتبہ بھی دیکھے تو بھی مقبول حج کا ثواب ملے گا۔(البر والصلۃ لامام ابن جوزى 68/1 رقم: 48)

اَلْحَدِيْثُ الرابع:

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ اَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ اِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اَرَدْتُ اَنْ اَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ اَسْتَشِيرُكَ فَقَالَ هَلْ لَكَ مِنْ اُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَالْزَمْهَا فَاِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا ترجمہ: معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔(حدیث سنن نسائی: رقم الحديث: 3104)

مدنی پھول:

(1)حضرتِ سَیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ والدین کے ساتھ اچھائی کس طرح کی جائے؟ فرمایا: تمہاری ملکیت میں جو کچھ ہے اسے والدین پر خرچ کرو اور معصیت کے علاوہ ہر بات میں ان کی اطاعت کرو۔

(2)والدین بوڑھے ہوں یا جوان ہر حال میں ان کی خدمت کرنی چاہیے البتہ جوانی کے مقابلے بڑھاپے میں وہ خدمت کے زیادہ حق دار ہیں۔

(3) بوڑھے والدین کی خدمت کرکے ان سے دعائیں لینی چاہئیں کہ بوڑھے کی دعا رب تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔

(4) بوڑھے والدین کی سخت باتوں پر بھی صبر کرنا چاہیے اور ان کی سختی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے۔

والدین کا دل دُکھانے والا اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتاہے اور آخرت میں بھی عذابِ نار کاحق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔