اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15، بنی اسرائیل: 23)

اللہ پاک نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا کیونکہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ پاک ہے اور ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں۔اس وجہ سے اللہ پاک نے پہلے اپنی تعظیم کا حکم ارشاد فرمایا پھر والدین کی تعظیم کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔احادیثِ مبارکہ میں بھی ماں باپ کی فرمانبرداری کا حکم موجود ہے۔

سب سے زیادہ احسان کی مستحق:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئیں۔

جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں: بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے، اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے متعلق خدا کی نافرمانی کرتا ہے، اس کے لیے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ ایک شخص نے کہا، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں ؟ فرمایا: اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں۔ (شعب الایمان، باب في برالوالدین، فصل في حفظ حق الوالدین بعد موتھما، فصل، الحدیث: 7916،ج 6، ص 206۔)

ماں کے قدم کے پاس جنت: ایک صحابیِ رسول حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہ! (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے مشورہ لینے کو حاضر ہوا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تیری ماں ہے؟ عرض کی، ہاں۔ فرمایا:اس کی خدمت لازم کرلے کہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، حدیث معاویۃ بن جاھمۃ،الحدیث: 15538،ج 5، ص 290۔)

کافر ماں سے بھی نیک سلوک: صحیح بخاری و مسلم میں اسماء بنتِ ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے مروی، کہتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)سے معاہدہ کیا تھا میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یارسول اﷲ!(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا:اس کے ساتھ سلوک کرو۔یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب الجزیۃ والموادعۃ، الحدیث: 3183 ،ج 2،ص 371)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔