پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے والدین کے ساتھ حسن سلوک
کرنے کا حکم قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا، جیساکہ اللہ پاک اپنے پاک
کلام قرآن مجید فرقان حمید کے پارہ 15، سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں
ارشاد فرماتا ہے:
وَ قَضٰى رَبُّكَ
اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا
سلوک کرو۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:23)
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے
ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے
وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب
اس کے ماں باپ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب
کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ آیت کا معنی
یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے
ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت
عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔
آیئے! والدین کے ادب و احترام اور اطاعت و فرمانبرداری پر
مشتمل پانچ احادیث طیبہ پڑھتے ہیں:
(1)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ
کی اطاعت والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی
نافرمانی میں ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/641 ، حدیث:2255)
(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
والد جنت کے سب دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اب تو چاہے تو اس دروازے کو اپنے
ہاتھ سے کھودے خواہ نگاہ رکھ (یعنی تعظیم کر)۔(ترمذی، کتاب البر و الصلۃ، باب ما
جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 3/359، حدیث: 1906)
(3)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب گناہوں کی سزا اللہ پاک چاہے
تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔(مستدرک
للحاکم، کتاب البر و الصلۃ، باب کل الذنوب يوخر اللہ ماشاء منھا الا عقوق
الوالدین، 5/217، حدیث:7345)
(4)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زیادہ
احسان کرنے والا وہ شخص ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ
کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔(مسلم،کتاب البرّ
والصلۃ والآداب،باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ و نحوہما، ص1382 ، حدیث:2552)
(5)حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی (یعنی ناراضی)
باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا
الوالدین، 3/360، حدیث: 1907)
اللہ پاک ہمیں والدین کا فرمانبردار بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ
خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم