تلاوت قراٰن کے فضائل

Tue, 25 Feb , 2020
4 years ago

تمام خوبياں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے سب سے افضل کتاب سب سے افضل نبی علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر اتار کر بندوں پر بہت بڑا احسان فرمایا، جہاں قرآن پڑھنے والوں کو اللہ کا خاص بندہ کہا گیا ہے وہاں قرآن کے لیے اپنے دلوں کو برتن بنانے والوں کو عذابِ الٰہی سے محفوظ ہونے کی بشارت دی گئی ہے، جو ربِ رحیم سے مناجات اور گفتگو کرنے کی چاہت رکھتا ہے اسے کہا گیا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرے، گھر میں تلاوتِ قرآن مجید فرشتوں کے نزول اور شیطان کے دور ہونے کا سبب ہے، اس کی قراءت کرنے والے کو اور اس پر عمل کرنے والوں کو اس تھیلے کی مثل کہا گیا جس میں مشک بھرا ہوا ہو اور اس کی خشبو ہر جگہ مہک رہی ہو، قرآن کی فضیلت کے کیا کہنے کہ اس کی تلاوت کا حکم خود اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کو ارشاد فرمایا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب پڑھو جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی۔(پ21، العنکبوت:45)

آیت کے اس حصے کے تحت صدر الافاضل مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز تفسیر خزائن العرفان میں کچھ یوں فرماتے ہیں،یعنی قرآن شریف کہ اس کی تلاوت عبادت بھی ہے اور اس میں لوگوں کے لیے پندو نصیحت بھی اور احکام و آداب و مکارم اخلاق کی تعلیم بھی۔(تفسیر خزائن العرفان، ص 743 مطبوعہ مکتبۃُ المدینہ)

ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ(۲۹)ترجمۂ کنز الایمان: بےشک وہ جو اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے اور ہمارے دئیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں پوشیدہ اور ظاہر وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں ہرگز ٹوٹا(نقصان) نہیں۔(پ22، فاطر:29)

اس آیت کے تحت تفسیر دُرّ منثور میں ہے کہ مالِ تجارت سے مراد جنت ہے، اور لَنْ تَبُوْرَ سے مراد جو جو ہلاک نہ ہو۔(درمنثور، 7/23)

اور اگر ہم احادیث کی طرف بھی دیکھیں تو تلاوتِ قرآن کے بکثرت فضائل ہیں ان میں سے یہاں چند ذکر کیے جاتے ہیں چنانچہ

(1)حضرت خفیف بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: اے معاذ! اگر تمہارا سعادت مندوں کے سے عیش اور شہیدوں کی سی مو ت اور یوم محشر میں نجات اورر وزِ قیامت کے خوف سے امن، اندھیروں کے دنوں نور اور گرمی کے دن سایہ اور پیاس کے دن سیرابی اور ہلکا پن کی جگہ وزن داری اور گمراہی کے دن ہدایت کا ارادہ ہے تو قرآن پڑھتے رہو کہ یہ رحمٰن کا ذکرِ پاک ہے اور شیطان سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور حساب اور کتاب کے ترازو میں رجحان( جھکنے) کا سبب ہے۔(کنزالعمال،1/272)

(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے ارشاد فرمایا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں قرآن پڑھنے اور آپس میں قرآن سیکھنے سکھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں ان پر سکینہ اترتا ہے، رحمت ان پر چھا جاتی ہے اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس جماعت میں یاد کرتا ہے جو اللہ کے خاص قرب میں ہیں۔(مسلم، ص1447،حدیث:2699)

(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے جس کو قرآن نے میرے ذکر اور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا، اسے میں اس سے بہتر دوں گا جو مانگنے والوں کودیتا ہوں، اور کلامُ اللہ کی فضیلت دوسرے کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ پاک کی فضیلت اس کی مخلوق پر۔(ترمذی)

بزرگانِ دین کا جذبۂ تلاوت اور ایک ہماری حالت:

(1)حضرت سیدنا ابن سعد بن ابراہیم زہری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم اپنی پیٹھ اور پنڈلیوں کو کسی کپڑے سے باندھ کر بیٹھ جاتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے۔(اللہ والوں کی باتیں، 3/247مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

(2)حضرت سیدنا مخلدین حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت سیدنا منصور بن زادان رحمۃ اللہ علیہ ہر دن اور رات میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے۔(اللہ والوں کی باتیں، 3/87مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور تو کیجئے کہ ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ السَّلام قرآن پاک سے شدتِ محبت کی وجہ سےکیا کیا انداز اپناتے تھے اور ہر دن اور رات میں قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے اور آہ ایک آج ہماری حالت یہ ہے کہ قرآن پاک کو ختم کرنا تو دور کی بات کئی کئی ماہ گزر جاتے ہیں لیکن قرآن کھول کر پڑھنے کی توفیق تک نہیں ملتی اور دوسری طرف ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے بچوں سے دنیا کی کوئی چیز پوچھ لی جائے تو وہ بتادیں گے لیکن اگر دیکھ کر پڑھنے کو کہا جائے تو شرم کے مارے منہ نیچا کرلیتے ہیں، جب کہ پہلے کے بزرگانِ دین اپنے بچوں کو شروع ہی سے قرآن کی تعلیم دلواتے اور اچھے پڑھانے والے کا انتخاب بھی کرتے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے شروع ہی سے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو قرآن کریم کی تعلیم دلوائی تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن مجید مکمل پڑھنے کی نعمت سے مشرف ہوگئے۔

جہاں قرآن پڑھنے کے اُخروی فوائد ہیں وہیں دنیاوی فوائد بھی بے شمار ہیں، ان دنیاوی فوائد میں سے یہاں چند ذکر کرتے ہیں۔

دنیاوی فوائد :(1)جو شخص ہمیشہ قرآن دیکھ کر پڑے گا جب تک وہ دنیا میں رہے گا اس کو اس کی نظرسے فائدہ جائے گا۔(کنزالعمال،1/269، حدیث:2403)(2)حافظہ مضبوط ہوتا ہے۔(3)دلوں کو چین ملتا ہے۔(4)گمشدہ چیز واپس ملتی ہے۔(5) پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔(6)قرآن پاک کی تلاوت میں ہر مرض سے شفا ہے۔نوٹ:یاد رہے قرآن پاک کے اُخروی و دنیاوی فوائد اس وقت حاصل ہوں گے جب کہ قرآن پاک کو درست مخارج کے ساتھ پڑھا جائے۔

ہے یہ فرمان نبی سن لو ذرا اس کابیاں ملتی ہیں قرآن کے ہر حرف پہ دس نیکیاں

جس کے دل میں کوئی بھی حصہ نہیں قرآن کا دل ہے مثل خانہ ویران اس انسان کا