قرآن مجيد کی تلاوت کے بہت سے فضائل ہیں، چنانچہ قراٰن پاک میں فرمایا
گیاترجمہ کنزالالعرفان :’’بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں،
اور نماز قائم رکھتے ہیں، اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ کچھ
ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، و ہ ا یسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہر گز تباہ نہیں
ہوگی،تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کا ثواب بھرپور دے، اور اپنے فضائل سے اور زیادہ
عطاکرے، بےشک وہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے۔(صراط الجنان فی التفسیر القرآن
فاطر ۲۹۔۳۰)
احادیث مبارکہ میں جو اس کی فضائل بیان ہوئے ہیں چند ایک ملاحظہ ہوں۔
۱۔ شفاعت کا ذریعہ :حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آپ
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قرآن پڑھو کیونکہ وہ
قیامت کے دن اپنے اصحاب کے لیے شفیع ہو کر آئے گا۔ (صراط الجنان ،1/20)
۲۔کیا دلوں کو بھی زنگ لگتا ہے؟
جی ہاں، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ ان دلوں میں بھی زنگ لگ
جاتی ہے جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتی ہے۔ عرض کی گئی یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی صفائی کس
چیز سے ہوگی؟ ارشاد فرمایا، کثرت سے موت کو یاد کرنے اور تلاوتِ قران کرنے سے۔
(۳) تلاوت کرنے اور نہ کرنے والا کس
کی مثل ؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قرآن
سیکھو اور اسے پڑھا کرو، کیونکہ جو قرآن سیکھے، پھر اس کی قرات کرے اور اس پر عمل
کرے اس کی مثال چمڑے کے اس تھیلے کی سی ہے جس میں مشک بھرا ہو، جس کی خوشبو ہر جگہ
مہک رہی ہو، اور جو سے سیکھے، پھر سویا رہے ۔ یعنی اس کی تلاوت نہ کرے یااس پر عمل نہ کرے،اوراس کے سینے میں قران ہو، توو ہ
اس تھیلے کی طرح ہے جس میں مشک ڈال کر اس
کا منہ بد کردیا گیا ۔( سنن ترمذی،4/401)
حکایت :غالب بن صعصعہ نے اپنے بیٹے فرزدق کے ساتھ حضرت علی رضی
اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر
ہوا، تو آپ رضی اللہ
تعالٰی عنہ نے دریافت
فرمایا: تم کون ہو؟ عرض کی، غالب بن
صعصعہ فرمایا: کیا تم وہی ہو جس کے پاس بہت سے اونٹ تھے عرض
کی جی ہاں، پوچھا تم نے اپنے اونٹوں کو کیا کیا،؟ غالب نے جواب دیا، میرے اونٹوں
کو آزمائشوں اور حقوق نے ختم کردیا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ
انہیں خرچ کرنے کا بہترین راستہ ہے۔پھر پوچھا، اے ابو اضطلل یہ تمہارے ساتھ کون
ہے؟ عرض کی یہ میرا بیٹا ہے، یہ شاعر ہے، فرمایا : اسے قرآن سکھاؤ، کہ وہ اس کے
لیے شعر سے بہتر ہے۔انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہ بات فرزدق کے دل میں گھر کر
گئی لہذا اس نے خود کو قید کرلیا، اور قسم کھائی جب تک قرآنِ پاک حفظ نہ کر لوں گا
سیڑھیاں نہیں کھولوں گا۔فرزوق نے ایک سال میں قران پاک حفظ کرلیا، ( دین ود نیا کی
انوکھی باتیں، 1/ 60)
اجرو ثواب :قرآن مجید کو
دیکھ کر پڑھنا آنکھ کا عبادت میں حصہ ہے۔( صراط الجنان 3/129)
۱۔جو قرآن پاک پڑھنے میں ماہر ہے وہ کراما کاتبین کے ساتھ ہے اور جو شخص رک رک
کرقران پڑھتا ہے۔اور وہ اس پر شاک ہے(یعنی اس کی زبان آسانی سے نہیں چلتی، تکلیف کے ساتھ ادا کرتا ہے۔) اس کے
لیے دو اجر ہیں۔ (شعب الایمان،2/458 حدیث: 222)
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تو عرض کی، سب سے افضل وہ کونسی
چیز ہے جس کے ذریعے مقرب بندے تیری بارگاہ میں قرب حاصل کرتےہیں ارشاد فرمایا: اے احمد! میرے کلام ، قرآن پاک کے ذریعے۔ عرض کی یارب!
سمجھ کر ( تلاوت کرنے سے) یا بغیر سمجھ کر
(تلاوت کرنے سے) ارشاد فرمایا: دونوں طرح سے خواہ وہ سمجھ کر تلاوت کریں یا بغیر
سمجھے۔( احیا ء العلوم الدین،1/347)