اللہ پاک نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو بہترین اوصاف سے نوازا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی عظیم مرتبے سے نوازا اور ان کو کلیمُ اللہ کا لقب عطا فرمایا،جس کا مطلب ہے:اللہ سے کلام فرمانے والا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر اللہ پاک سے ہم کلام ہوتے جہاں آپ کو اپنی قوم کو اللہ پاک سے ڈرانے کا حکم ہوتا تھا۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک سے بغیر کسی واسطے کے کلام کا شرف حاصل ہوا اور اللہ پاک کے قُرب کے مقام پر فائز ہوئے۔جیسا کہ پارہ 16سورۂ مریم آیت نمبر 52 اور 53میں اللہ پاک فرماتا ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت وجاہت حاصل تھی،آپ مستجابُ الدعوات تھے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں فیضانِ حضرت موسیٰ عطا فرمائے۔اٰمین

صفاتِ موسیٰ از بنتِ اصغر مغل،فیضان ام عطار شفیع کابھٹہ سیالکوٹ

مقدس جماعت میں سے پانچ رسول علیہم الصلوۃ والسلام ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں سے زیادہ ہے،اسی لیے انہیں بطورِ خاص ”اولو العزم رسول“ کہا جاتا ہے۔جن سے پانچ رسول علیہم الصلوۃ والسلام مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:(1)حضورِ اقدس ﷺ(2)حضرت ابراہیم علیہ السلام(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور(5) حضرت نوح علیہ السلام۔

قرآنِ کریم میں ان مبارک ہستیوں کا ذکرِ خیر کیا گیا ہے۔چنانچہ پارہ 21 سورۃُ الاحزاب آیت نمبر7 میں ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ(۷) ترجمہ کنز الایمان:اے محبوب! یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے ان کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے اور ہم نے ان سے بڑا مضبوط عہد لیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصر تعارف:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ نے 120 سال عمر پائی۔ (البدایۃ والنہایہ،1/326، 329) (تفسیرِ صاوی،2/696 ملتقطاً)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان وعظمت کی چند جھلکیاں:اللہ پاک کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام انتہائی شان و شوکت والے نبی ہیں۔قرآنِ کریم کے کئی پاروں اور آیاتِ مقدسہ میں بڑے شاندار انداز کے ساتھ آپ کا ذکرِ خیر بیان ہوا ہے۔آپ کا مبارک نام قرآنِ کریم میں 136 بار ذکر کیا گیا ہے۔آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب تورات عطا کی گئی۔آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف پایا۔ربِّ کریم نے آپ کو طُور پہاڑ پر بلا کر پہاڑ کی طرف رُخ کروایا اور وہاں تجلی فرمائی۔آپ کو ربِّ کریم نے کئی معجزات عطا کئے۔آپ نے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات بھی فرمائی۔آپ ہی کی بدولت بنی اسرائیل پر آسمان سے من وسلویٰ اتارا گیا۔ان پر نازل ہونے والا عذاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے دور ہوا۔

صفاتِ موسیٰ قرآنِ کریم میں:کتاب”عجائب القرآن“ میں لکھا ہے:ایک ہاتھ لمبا، ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا،اس مبارک پتھر کے ذریعے آپ کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔

اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو در حقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کو قرآنِ کریم میں اس طرح بیان فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے کہا تھا۔اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

دوسرا معجزہ میدانِ تیہ میں اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تو اس میں سے 12 چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس(40)سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-(پ1،البقرۃ:60)ترجمہ کنز العرفان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا، پھر جب آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہو جایا کرتا۔(عجائب القرآن، ص23)وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) (پ16، طٰہٰ:22)ترجمہ کنزالعرفان:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ بغیر کسی مرض کے خوبصورت ہو کر، ایک معجزہ بن کر نکلے گا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ مبارک سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔(تفسیرِ مدارک)جب حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنا ہاتھ بغل کے نیچے رکھ کر بازو سے ملاتے تو وہ اپنی پچھلی حالت پر آ جاتا۔(تفسیر صراط الجنان،6/ 181)

مذکورہ واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم پر بہت مہربان تھے۔انہیں راہِ خدا میں بہت ستایا گیا۔اچھوں کی صحبت کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔جو اللہ پاک کے نیک بندوں سے دشمنیاں مول لیتا ہے تو ذلت و رسوائی اسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہے اور وہ اللہ پاک کے قہر و غضب کی آگ میں گرفتار ہو جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے نیک،متقی اور عاجز بندوں کے صدقے نیک بندوں کا دل و جان سے ادب و احترام کرنے اور ان کے دامنِ کرم سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین