اللہ پاک
نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے بے شمار انبیائے کرام مبعوث فرمائے۔انبیائے
کرام علیہم السلام کائنات کی وہ عظیم ترین ہستیاں ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی
بخشی۔مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سیرتِ الانبیاء“صفحہ نمبر 29 پر ہے:نبی اُس بشر (یعنی انسان)
کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی ہو اور
اُن میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اُسے رسول کہتے
ہیں۔
انبیائے
کرام میں سے ایک برگزیدہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ علیہ السلام کا مبارک
نام:موسیٰ،لقب:کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بن
عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص527)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف:
قرآنِ
مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کئی اوصاف بیان کیے گئے ہیں،ان میں سے چند اوصاف
یہ ہیں:
1)حضرت
موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ
باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)
(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔
2) آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت
یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔ ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی
وجاہت والا ہے۔
3) آپ
علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ
الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی
حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ
نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)
(پ16،مریم:52،53)ترجمہ
کنزالایمان:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے
کے لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
اس سے
اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتا لگا کہ ان کی دعاسے وہ نعمت ملتی ہے جو
بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں
مل جائیں تو کیا مشکل ہے! البتہ نبوت کا باب چونکہ بند ہو چکا اس لیے اب کسی کو
نبوت نہیں مل سکتی۔
4)آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے
بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔فرمانِ باری
ہے:اِنَّهُمَا مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ
درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔
اللہ
پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی درست تعریف بیان کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ہمیں ان کی ادنیٰ سی بھی بےادبی و گستاخی سے محفوظ فرمائے۔اٰمین بجاہِ
خاتمِ النبیین ﷺ