نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی
ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی
قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔(سیرتُ الانبیاء، ص29)
اللہ
پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لیے،کفر و شرک،گمراہی اور بد عملی کے ماحول میں لوگوں
کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے، شرک سے روکنے،ایمان لانے پر جنت کی بشارت
اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اپنے انبیا کو مبعوث فرمایا۔اللہ
پاک نے تمام ہی انبیا کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے۔انبیا و مرسلین انتہائی اعلیٰ
اور عمدہ اوصاف کے مالک ہوتے ہیں۔کسی کو بھی عبادت و ریاضت کے ذریعے نبوت نہیں مل
سکتی۔قرآن و احادیث میں انفرادی و مجموعی طور پر انبیا و مرسلین کے بےشمار فضائل
بیان ہوئے ہیں۔انہی میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام
انتہائی شان و شوکت والے اور اللہ پاک کے مقرب نبی ہیں۔قرآنِ پاک کے کئی پاروں اور
آیات میں بڑے شاندار انداز کے ساتھ آپ علیہ السلام کا ذکرِ خیر ہوا ہے۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ
باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16، مریم:51)ترجمہ:اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کی یہ خاص صفت ہے کہ اللہ پاک سے بغیر کسی واسطے کے کلام کرنے
کا شرف حاصل ہوا اور اللہ کے قرب کے مقام پر فائز ہوئے جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ
نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،
53)
ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے
لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
اس سے اللہ
کے پیاروں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں
سے نہیں ملتی۔البتہ اب نبوت ختم ہو چکی تو اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو یہ مقام حاصل تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے صدقے ان کے بھائی
حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا فرما دی گئی۔
حضرت موسیٰ
علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل
ایمان والے بندے تھے۔ارشادِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ23،الصّٰفّٰت:122)
ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔
حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت حاصل تھی اور آپ مستجابُ الدعوات
بھی تھے۔قرآنِ پاک بھی اس کا شاہد ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ
كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (۶۹)(پ22، الاحزاب:69)
ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔
حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو بہت سے معجزات عطا کیے گئے، جن میں سے عصا،یدِ بیضاء وغیرہ بھی شامل
ہیں۔میدانِ تیہ میں جب پتھر پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے
جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس سال تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے
رہے،اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے:فَقُلْنَا
اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-(پ1،البقرۃ:60) ترجمہ:ہم
نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔
اللہ کریم
ہمیں انبیا علیہم السلام کا فیضان نصیب فرمائے۔ہمیں ان کی بے ادبی سے محفوظ فرمائے
اور ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فیض سے مالامال فرمائے۔اٰمین