اللہ
پاک نے انسانوں کی رہنمائی کے لیےمختلف انبیا و رسل علیہم السلام کو روشن نشانیوں
اور معجزات کے ساتھ بھیجا۔سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔نبی اس بشر کو
کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی اور ان
میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے
ہیں۔(سیرتُ الانبیاء،ص29)
انبیا
و مرسلین کی تعداد کے متعلق مختلف روایات ہیں،اس لیے ان کی صحیح تعداد اللہ پاک ہی
بہتر جانتا ہے۔ (سیرتُ الانبیاء،ص 30)ان میں سے پانچ اولوا العزم ہیں۔ان میں سے ایک
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ علیہ السلام پر تورات نازل ہوئی۔یہ سب سے پہلی
آسمانی کتاب ہے۔آپ سے پہلے انبیا علیہم السلام کو صحیفے بھی ملتے تھے۔اللہ پاک نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کئی اوصاف سے مزین فرمایا۔ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
(1)برگزیدہ بندے:حضرت
موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو
بےشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا۔
(2)رسول ہونا:آپ
علیہ السلام کو اللہ پاک نے رسالت کے منصب سے بھی نوازا۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ کنز العرفان:اور وہ نبی رسول تھا۔
(3)کلیمُ اللہ ہونا:آپ
علیہ السلام کلیمُ اللہ ہیں یعنی آپ علیہ السلام نے اللہ پاک سے بلا واسطہ کلام
فرمایا۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6،
النسآء:164)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ نے موسیٰ سے
حقیقۃً کلام فرمایا۔
(4)تورات شریف عطا ہونا:آپ
علیہ السلام کو اللہ پاک نے تورات شریف عطا فرمائی۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى
الْكِتٰبَ(پ19،الفرقان:35)ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو
کتاب عطا فرمائی۔
(5)اللہ پاک کی بارگاہ میں خاص قرب
والے:آپ
علیہ السلام بارگاہِ الٰہی میں بڑے قرب والے ہیں۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ16،مریم:52)ترجمہ کنز العرفان:اورہم نے اسے اپنا راز لینے
کے لیے مقرّب بنایا۔
(6)روشن نشانیوں کا عطا ہونا:اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام کو نبوت پر دلالت کرنے والی 9
نشانیاں عطا فرمائیں:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ
بَیِّنٰت(پ 15، بنی اسرائیل:101)ترجمہ
کنز العرفان:اوربے
شک ہم نےموسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔
(7) بنی اسرائیل کا فضیلت والا ہونا:اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر
فضیلت عطافرمائی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى
الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25، الدخان:32)ترجمہ
کنز العرفان:اور
بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔
(8)مستجابُ الدعوات ہونا:آپ
علیہ السلام مستجابُ الدعوات تھے۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کی دعا سے آپ علیہ
السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت سے نوازا:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ
رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم
نے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو بھی دیا جو نبی تھا۔
(9) روشن غلبے والا ہونا:اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی قوم کو فرعونیوں سے نجات عطا فرما کر
روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم
نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔
(10)شرم و حیا والا ہونا:ویسے
تو حیا تمام ہی انبیائے کرام علیہم السلام کا وصف رہا ہے لیکن حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی شرم و حیا کے متعلق نبیِ پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام
بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(سیرت
الانبیاء،ص528)(بخاری،2/442،حدیث:3404)