حضرت
موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے پیارے نبی ہیں۔آپ کے والد کا نام عمران اور والدہ
کا نام یوحانذہے۔آپ علیہ السلام کے بے شمار اوصاف قرآنِ کریم میں اللہ ربُّ العزت
نے بیان فرمائے ہیں، ان میں سے پانچ اوصاف کو قرآن و کتب تفسیر کی روشنی میں مختصر
طور پر پیش کرتی ہوں:
(1)پہلا
وصف:حضرت موسیٰ کلیمُ اللہ علیہ السلام سے اللہ پاک نے بلا
واسطہ کلام فرمایا۔یہ کلیمُ اللہ کی صفت آپ کے سوا کسی کو اس دنیا میں عطا نہ کی
گئی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کا کلام حقیقۃً سنا،جو اس بات کا انکار
کرے وہ گمراہ ہے کہ آیت کا منکر ہے۔(تفسیر نعیمی،6/ 101)چنانچہ
ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء:164)ترجمہ کنز العرفان: اللہ نے
موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ ربُّ العزت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کلام
فرمایا۔کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لیے با طہارت،
پاکیزہ لباس پہن کر اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے۔اللہ پاک نے ایک بادل
نازل فرمایاجس نے بارہ میل کی مقدار پہاڑ کو ڈھک لیا۔آپ کے لیے آسمان کھولا گیا۔آپ
نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے کلام فرمایا اور آپ کو
کلامِ الٰہی کی لذت نے اس کے دیدار کا مشتاق بنا دیا۔(تفسیر صراط الجنان،جلد 7)
(2)دوسرا وصف:اللہ پاک نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو محبوبیتِ عامہ بخشی تھی۔چنانچہ جب آپ کی ولادت کا وقت
قریب آیا تو فرعون کی دائی آپ کے گھر رہنے لگی۔جب آپ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو
فرعون کی دائی آپ کو دیکھ کر بے اختیار آپ پر عاشق ہو گئی۔اسی طرح جب سانوم نامی
شخص کو آپ کی زیارت کروائی گئی تو وہ آپ علیہ السلام کے قدموں پر آنکھیں ملنے لگا
اور آپ پر ایمان لے آیا۔سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا یہی شخص ہے۔اسی طرح
فرعون اور اس کی بیوی نے جب آپ علیہ السلام کو دیکھا تو آپ کا حسن و جمال دیکھ کر
آپ پر فدا ہو گئے۔(تفسیر نعیمی، 1/320،321)
(3)تیسرا وصف:حضرت موسیٰ علیہ السلام مستجابُ الدعوات ہیں۔اللہ پاک نے آپ
کی دعا سے بنی اسرائیل کو مقامِ تیہ میں وہ لباس عطا فرمایا جو نہ خراب ہوا نہ
میلا۔بارہ چشمے پانی کے عطا فرمائے اور منّ و سلویٰ عطا فرمایا۔چنانچہ ارشادِ باری
ہے:وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ
السَّلْوٰى(پ1،البقرۃ:57)ترجمہ کنز الایمان:اور تم پر منّ و سلویٰ اتارا۔نیز آپ علیہ السلام کی دعا سے ہی بنی اسرائیل
کو فرعون سے نجات دلائی اور بنی اسرائیل کو طرح طرح کی بے شمار نعمتیں عطا کیں۔نیزآپ
علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت
عطا فرمائی۔(تفسیر صراط الجنان، جلد6)
(4)چوتھا وصف:حضرت موسیٰ
علیہ السلام پر اللہ پاک نے تورات نازل فرمائی اور یہ عبرانی زبان میں نازل
ہوئی۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا
مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَان(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ
کنز الایمان:اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان دی۔
تفسیر:کتاب کے نزول کا پسِ منظر یوں ہے کہ بنی اسرائیل نے نذر
مانی تھی کہ اگر ہم کو فرعون سے نجات مل گئی تو ہم اللہ پاک کی اطاعت کریں گے۔چنانچہ
جب بنی اسرائیل کو نجات مل گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی نذر انہیں یاد
دلائی تو بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں جان و دل سے قبول ہے مگر ہمیں رب کے احکام کی
خبر نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی تو جواب ملا
کہ کوہِ طور پر آنا، تمہیں تورات عطا کی جائے گی۔تو آپ کوہِ طور پر تشریف لے گئے اور
آپ پر یکبارگی دس صحیفے نازل ہوئے۔ (تفسیر نعیمی، 1/331)
(5)پانچواں وصف:حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو اللہ پاک نے یدِ بیضاء یعنی روشن ہاتھ عطا فرمایا تھا۔چنانچہ جب آپ
علیہ السلام اپنا مبارک ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو آپ کا ہاتھ روشن ہو
کر چمکنے لگتا۔پھر جب اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالتے تو وہ اپنی اصل حالت پرآ جاتا۔اس
معجزے کو اللہ پاک نے سورۂ طٰہٰ میں بیان فرمایا ہے۔ارشادِ ربُّ العزت ہے:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ
غَیْرِ سُوْٓءٍاٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)(پ16،طٰہٰ:22) ترجمہ کنز الایمان:اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سپید
نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے
ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دستِ مبارک سے رات میں چاند اور دن میں سورج کی
روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔(تفسیر صراط الجنان، 6/89)