یوں تو سارے انبیا و رسل علیہم السلام ہمّت والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر و ہمّت کا شان دار مظاہرہ کیا ہے۔ البتہ اس مقدّس جماعت میں پانچ رسول ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں سے زیادہ ہے،ان کو بطورِ خاص اولواا لعزم رسول کہا جاتا ہے اور جب بھی اولواا لعزم رسول کہا جائے تو یہی پانچ رسول مراد ہوتے ہیں۔وہ یہ ہیں:(1)حضور اقدسﷺ (2)حضرت ابراہیم علیہ السلام (3)حضرت موسیٰ علیہ السلام(4)حضرت عیسیٰ علیہ السلام(5)حضرت نوح علیہ السلام۔(حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان و عظمت،ص3)

(1) آپ علیہ السلام کو اللہ پاک کی طرف سے ایک آسمانی کتاب تورات عطا کی گئی۔

(2) آپ علیہ السلام نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف پایا،اسی لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔

(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی شان و شوکت والے نبی ہیں۔

(4) قرآنِ کریم کے کئی پاروں اور آیاتِ مقدّسہ میں بڑے شان دار انداز کے ساتھ آپ علیہ السلام کا ذکرِ خیر بیان ہوا ہے۔

(5) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو طور پہاڑ پر بلا کر پہاڑ کی طرف رخ کروایا اور وہاں تجلّی فرمائی۔

(6) آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے کئی معجزات بھی عطا فرمائے۔

(7)آپ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات بھی فرمائی اور معراج کی رات نبیِ پاکﷺ نے آپ کو اپنی قبر میں نماز کی حالت میں ملاحظہ فرمایا تھا۔

(8) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو بہت زیادہ طاقت و قوّت عطا فرمائی تھی آپ علیہ السلام بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔آپ علیہ السلام انتہائی حسین و جمیل تھے۔

(9) آپ نے معراج کی رات حضورِ پاکﷺ کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت پائی تھی۔امّتِ محمدیہ پر آپ علیہ السلام کا ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ معراج کی رات آپ علیہ السلام کی بدولت پچاس نمازیں کم ہو کر پانچ رہ گئیں۔

(10) آپ علیہ السلام نے اپنا عصا پتھر پر مارا تو اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے تھے۔آپ علیہ السلام نے دریائے نیل پر اپنا عصا مارا تو اس میں سےبارہ سڑکیں بن گئیں تھیں۔آپ علیہ السلام ہی کی بدولت بنی اسرائیل پر آسمان سے منّ اور سلویٰ اترا تھا۔(منّ شہد کی طرح ایک قسم کا حلوہ تھا اور سلویٰ بھنی ہوئی بٹیریں)۔(حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان و عظمت،ص7،8)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بے شمار صفاتِ مبارکہ قرآنِ مجید میں بھی موجود ہیں اور آپ علیہ السلام اللہ پاک کے نبی ہیں۔آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ آپ علیہ السلام کی بے شمار صفات ہونے کےساتھ ساتھ آپ کے بے شمار معجزات بھی تھے۔جن میں سے آپ علیہ السلام کے عصا اور بدِ بیضاء والے معجزے زیادہ مشہور ہیں۔چنانچہ پارہ 1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 60 میں ارشاد ہوتا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-ترجمۂ کنز العرفان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔“ارشاد فرمایا:قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى(۷۰)(پ16،طٰہٰ:70)ترجمۂ کنز العرفان:ہم ہارون اور موسیٰ کے ربّ پر ایمان لائے۔پارہ 6 1 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 22 میں ارشاد ہے:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)ترجمہ کنز العرفان:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ، بغیر کسی مرض کے خوب سفید ہو کر ایک اور معجزہ بن کر نکلے گا۔

اسی طرح قرآنِ پاک کی بعض اور سورتوں میں آپ علیہ السلام کی صفات اور معجزات کا ذکر آیا ہے۔ہمیں آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کی صفات اور معجزات پر بھی صدقِ دل سے یقین رکھنا چاہیے۔اللہ پاک ہمیں اپنے نیک بندوں کا صدقہ نیک بنائےاور ہمیں اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتم النبیینﷺ