اے عاشقانِ
رسول !اللہ پاک نے مخلوق کی مدد و نصرت کے لیے بے شمار انبیائے کرام علیہم السّلام
اور رُسلِ عظام کو مبعوث فرمایا اور ان کے راستے میں بہت زیادہ تکالیف آئیں مگر
انہوں نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ان میں سے جو حق کے راستے پر ہمیشہ رہے ان میں سے
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں،جنہوں نےاپنے رب کا کلام لوگوں تک پہنچایا اور
اللہ پاک کا حکم بجا لائے۔آئیے!ان کی صفات کا بھی ذکر پڑھتی ہیں جو ربِّ کریم نے
خود ارشاد فرمائی ہیں۔اس سے پہلے یہ جان لیتی ہیں کہ صفات کسے کہتے ہیں۔
صفت
کا لغوی معنیٰ:مَا
قَامَ بِشَئٍ
یعنی جو کسی شی کے ساتھ قائم ہو۔
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ
کنز الایمان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چُنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب
کی خبریں بتانے والا۔
تفسیر صراط
الجنان میں ہے کہ اس سے پہلی آیات میں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی صِفات بیان کی
گئیں اور اب یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتی ہیں کہ خلیلُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کرنے
کے بعد اب کلیمُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات
بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے
تھے۔(2)آپ علیہ السّلام رسول و نبی
تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4) آپ علیہ السّلام کواپنا
قرب بخشا۔(5) آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام
کونبوت عطاکی۔
حضرت موسیٰ
علیہ السّلام حضرت یعقوب علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں، اسی لئے ان کا ذکر
حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پہلے فرمایا تاکہ دادا اور پوتے کے ذکر میں فاصلہ نہ
ہو۔ورنہ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے ہیں۔(تفسیر روح
المعانی، 8 / 559)
خلیل
و نجی، مسیح و صَفی سبھی سے کہی کہیں بھی بنی
یہ بے
خبری کہ خَلق پھری کہاں سے کہاں تمہارے لئے
(حدائقِ
بخشش)(تفسیر صراط الجنان،6/118)