صفت کا معنی خوبی،اچھائی اور وصف ہے۔یوں تو انبیا ورُسل علیہم السلام بڑی ہمت والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف کا صبر کےساتھ مظاہرہ کیا۔البتہ ان کی جماعت میں پانچ رُسل ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں سے زیادہ ہے، اسی لیے انہیں بطورِ خاص اولو االعزمرسول کہتے ہیں۔ جب اولوا العزم کہا جائے تو یہی پانچ رسول مراد ہوتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:(1)حضرت محمد ﷺ(2)حضرت ابراہیم علیہ السلام(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام(4)حضرت عیسیٰ علیہ السلام(5)حضرت نوح علیہ السلام۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بے شمار صفات اور معجزات سے نوازا، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم سے آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا اور جب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکالتے تو اپنی حالت پر ہوجایا کرتا تھا:فرمانِ باری ہے:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)(پ16، طٰہٰ:22)ترجمہ:اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ بغیر کسی مرض کے سفید ہو کر ایک اور معجزہ بن کر نکلے گا۔

(2)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علمِ لَدُنِّی ملا تھا اور کسی استاذ کے واسطے کے بغیر آپ کو عطا ہوا:فرمانِ باری ہے: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20، القصص:14) ترجمہ کنز الایمان:اور جب موسیٰ جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔یہاں جو علم مراد ہے وہ آپ کو نبوت سے پہلے دیا گیا۔یہاں علم و حکمت سے مراد نبوت نہیں۔

(3)حضرت ہارون علیہ السلام کی نبوت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے۔

(4)ہدایت کا فریضہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی عطا فرمایا۔انہوں نے فرعون کو دعوتِ حق دی۔اس کی اس تمام گفتگو کےباوجود اپنے مقصود یعنی دعوتِ توحید کی طرف متوجہ رہے اور فرمایا:رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲۸)(پ19،الشعراء:28) ترجمہ:مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے اگر تمہیں عقل ہو۔

(5)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کو دعوتِ حق دی تو فرعون نے نشانی طلب کی۔فرعون کی نشانی طلب کرنے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر مار دیا تو اچانک بالکل واضح ایک بہت بڑا سانپ بن گیا اور پھر ان کی طرف متوجہ ہو کرکہنے لگا:مجھے جو چاہیں حکم دیجیے۔فرمانِ باری ہے:فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۳۲)وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۳۳) (پ19، الشعراء:32، 33) ترجمہ کنز الایمان:تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا جبھی وہ صریح اژدہا ہوگیا۔اور اپنا ہاتھ نکالا تو جبھی وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا۔

(6)فرمانِ باری ہے:عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۠(۱۲۹) (پ9، الاعراف:129)ترجمہ:عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔اس قرآنی آیت سے معلوم ہوا!اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علمِ غیب عطا فرمایا تھا اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کم و کاست بیان فرما دیے اور کچھ عرصے بعد جیسا آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوا اور بنی اسرائیل ملکِ مصر کے مالک ہوئے۔

(7)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے اپنے کلیم موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰى(۸۳)ترجمہ کنزالعرفان:اور اے موسیٰ! تجھے اپنی قوم سے کس چیز نے جلدی میں مبتلا کردیا؟جبکہ اپنے حبیب ﷺ کے بارے میں فرمایا:وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵)(پ30،الضحیٰ:5) ترجمہ:اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم خدا چاہتا ہے رضائے محمد

(8)فرمانِ باری ہے:قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ ترجمہ کنز العرفان:(اللہ نے) فرمایا:اے موسیٰ!میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلی۔اس میں لوگوں سے مراد ان کے زمانے کے لوگ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ عزت و مرتبہ،شرافت وجاہت والے تھے۔کیونکہ آپ صاحبِ شریعت ہیں اور آپ پر اللہ پاک کی کتاب تورات بھی نازل ہوئی۔(تفسیر خازن،2/144 ملتقطاً)

(9)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس رات مجھے معراج عطا کی گئی تو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جو کثیبِ احمر (ایک سرخ ٹیلے) کے پاس اپنی قبرمیں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔(مسلم،حدیث:994)

(10)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں: اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دی۔جن میں سے ایک نشانی آپ کی جنتی لاٹھی یعنی آپ کا عصا مبارک بھی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات پر قرآنی حوالہ جات جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

سورۂ بقرہ،آیت نمبر49تا73اور92،93۔سورۂ نسآء،آیت نمبر 15اور153۔سورۂ مائدہ آیت نمبر 20تا 64۔سورۂ یونس آیت نمبر 75تا93۔سورہ ٔابراہیم آیت نمبر 5تا 8وغیرہ وغیرہ۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔آمین