حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے بلا واسطہ ہم کلام ہونےکی سعادت پانے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔

نام و لقب:آپ علیہ السلام کامبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریمﷺ نے فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔(مستدرک، حدیث: 4153)

حلیہ مبارک:احادیثِ مبارکہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حلیہ مبارک بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حلیہ جاننے کے لیے اپنے صاحب(محمدﷺ)کی طرف دیکھ لو اور رہے حضرت موسیٰ علیہ السلام تو ان کاجسم دُبلا پتلا اور رنگ گندمی تھا۔ (بخاری،حدیث: 2355)

شرم و حیا:شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلق نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اوراپنا بدن چھپانے کاخصوصی اہتمام کرتے تھے۔(بخاری،2/442،حدیث:3404)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف:

(1،2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے بر گزیدہ بندے اور نبی و رسول تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم: 51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بےشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

تفسیر صراط الجنان:اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2) آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4) آپ علیہ السلام کواپنا قرب بخشا۔(5) آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔

(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ16،مریم:52)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کے دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنے راز کہنے کے لیے مقرب بنایا۔

تفسیر صراط الجنان:طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دائیں طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی۔اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔

(4)حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم:53)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:یعنی جب حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا تو اللہ پاک نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے برگزیدہ بندے جب اللہ پاک کے حضور کوئی دعا پیش کرتے ہیں توانہیں عطا کیا جاتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک اور بڑی صفت مستجابُ الدعوات یعنی دعائیں قبول کیا جانے والا بھی ہےاور آپ اللہ پاک کے محبوب نبی،کلیمُ اللہ اور مستجابُ الدعوات جیسی صفات کے مالک تھے۔