حضرت داؤد علیہ السّلام الله پاک کے انبیا میں سے ایک نبی ہیں۔ انبیا نبی کی جمع ہے۔ نبی الله پاک نے ہر قوم کی طرف کوئی نہ کوئی نبی بھیجا جو ان کو ایک الله کی عبادت کی تلقین اور اچھے کاموں کی طرف راغب کرتے تھے۔ ان میں سے ایک نبی حضرت داؤد علیہ السّلام بھی ہیں۔جن کو الله پاک نے بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا تھا ۔

حضرت داؤد علیہ السّلام کا شجرہ نسب اور حلیہ: آپ علیہ السّلام کا مبارک نام ’’داؤد‘‘اور نسب نامہ یہ ہے : داؤد بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عویناذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودابن حضرت یعقوب بن حضرت اسحاق بن حضرت ابراہیم علیہم السّلام (البدایہ والنھایہ ، قصۃ داؤد علیہ السّلام و ما کان فی ایامہ…الخ ، 1 / 455) آپ علیہ السّلام بہت خوبصورت تھے ، چنانچہ آپ کا مبارک حلیہ بیان کرتے ہوئے حضرت کعب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : حضرت داؤد علیہ السّلام سرخ چہرے ، نرم و ملائم بالوں ، سفید جسم اور طویل داڑھی والے تھے۔ ( روح المعانی ، الانعام ، تحت الاٰيۃ : 84 ، 4 / 277)

آواز کی خوبصورتی اور تلاوتِ زبور : جسمانی خوبصورتی کے ساتھ آپ کی آواز بھی بہت دلکش تھی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : اللہ پاک نے حضرت داؤد علیہ السّلام کو ایسی بے مثل اور عمدہ آواز عطا فرمائی جو کسی اور کو نہ دی ۔ جب آپ علیہ السّلام ترنم کے ساتھ زبور شریف کی تلاوت کرتے تو پرندے ہوا میں ٹھہر کر آپ کی آواز کے ساتھ آواز نکالتے اور تسبیح کے ساتھ تسبیح کرتے ، اسی طرح پہاڑ بھی صبح و شام آپ علیہ السّلام کے ساتھ تسبیح کرتے تھے ۔ (قصص الانبیاء لابن کثیر ، الباب السادس عشر ، قصۃ داؤد ، فصل الاول ما کان فی ایامہ…الخ ، ص593)

امام اوزاعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جتنی خوبصورت آواز حضرت داؤد علیہ السّلام کو عطا کی گئی اتنی کسی اور کو عطا نہ ہوئی۔ (جب آپ علیہ السّلام زبور شریف کی تلاوت کرتے تو) پرندے اور جنگلی جانور آپ علیہ السّلام کے ارد گرد جمع ہو جاتے (اور تلاوت سننے میں اس قدر مگن ہوتے کہ انہیں کھانے پینے کا کچھ ہوش نہ رہتا)یہاں تک کہ (ان میں سے بعض کی) بھوک پیاس سے جان چلی جاتی تھی۔ (ایضاً)

قراٰنِ پاک سے آپ کی نبوت اور بادشاہت کا ثبوت: ﴿ فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﳜ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍۙ-لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۲۵۱) ﴾ترجمۂ کنزالایمان: تو انہوں نے ان کو بھگا دیا اللہ کے حکم سے، اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے۔(پ2،البقرۃ:251)

اللہ پاک نے حضرت داؤد علیہ السّلام کو حکومت اور حکمت یعنی نبوت دونوں عطا فرما دئیے اور آپ کو جو چاہا سکھایا ، اس میں زرہ بنانا اور جانوروں کا کلام سمجھنا دونوں شامل ہیں جیسا کہ سورۂ انبیا،آیت79، 80میں ہے۔

حضرت داؤد کی صفات و فضائل: ﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًاؕ-یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَ الطَّیْرَۚ-وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَۙ(۱۰) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔ اے پہاڑو اور پرندو! اس کے ساتھ (اللہ کی طرف) رجوع کرو اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا۔(پ22،سبا: 10)تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت داؤد علیہ السّلام کے تین فضائل بیان فرمائے ہیں ۔(1) حضرت داؤد علیہ السّلام کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔(2) پہاڑوں اور پرندوں کو حضرت داؤد علیہ السّلام کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم دیا۔(3) حضرت داؤد علیہ السّلام کے لئے لوہا نرم فرما دیا۔مزید چند اوصاف پرھئے:

(1) حضرت داؤد علیہ السّلام کو زبور عطا فرمائی گئی،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:55)

(2) انہیں کثیر علم عطا فرمایا گیا، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًاۚ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا۔ (پ19،النمل:15)

(3) انہیں غیر معمولی قوت سے نوازا گیا، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِۚ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(۱۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہمارے نعمتوں والے بندے داؤد کو یاد کرو بیشک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے۔(پ23،صٓ:17)

(4) انہیں زمین میں خلافت سے سرفراز کیا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں (اپنا) نائب کیا۔( پ23،صٓ:26)﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًاؕ ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔(پ22،سبا:10)آیت کے اس حصے میں بڑے فضل سے مراد نبوت اور کتاب ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ملک ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے آواز کی خوبصورتی وغیرہ وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو آپ علیہ السّلام کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمائی گئیں ۔ (خازن، سبا، تحت الآیۃ: 10، 3 / 517)

حضرت داؤد علیہ السّلام اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اللہ پاک کے فضل میں فرق: آیت کے اس حصے میں اللہ پاک نے حضرت داؤد علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے حضرت داؤد علیہ السّلام کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا جبکہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ہر طرح کے فضل اور فضل کے کمال کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ ﴿وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا (۱۱۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔ (پ5، النسآ:113)

یٰجِبَالُ: اے پہاڑو!) اللہ پاک نے پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دیا کہ ’’ اے پہاڑو اور اے پرندو!جب حضرت داؤد علیہ السّلام تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ۔چنانچہ جب حضرت داؤد علیہ السّلام تسبیح کرتے تو پہاڑوں سے بھی تسبیح سنی جاتی اور پرندے جھک آتے ۔یہ آپ علیہ السّلام کا معجزہ تھا۔

﴿وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَۙ(۱۰)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان :اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا۔(پ22، سبا: 10)حضرت داؤد علیہ السّلام کے لئے اللہ پاک نے لوہا نرم فرما دیا کہ جب آپ علیہ السّلام کے دست مبارک میں آتا تو موم یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہوجاتا اور آپ علیہ السّلام اس سے جو چاہتے بغیر آگ کے اور بغیر ٹھونکے پیٹے بنا لیتے۔

حضرت داؤد علیہ السّلام کے لئے لوہا نرم کئے جانے کا سبب: حضرت داؤد علیہ السّلام کے لئے لوہا نرم کرنے کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ علیہ السّلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے تو آپ علیہ السّلام لوگوں کے حالات کی جستجو کے لئے اس طرح نکلتے کہ لوگ آپ علیہ السّلام کو پہچان نہ سکیں ،اور جب کوئی ملتا اور آپ علیہ السّلام کو پہچان نہ پاتا تو اس سے دریافت کرتے کہ’’ داؤد کیسا شخص ہے ؟وہ شخص ان کی تعریف کرتا۔ اس طرح جن سے بھی اپنے بارے میں پوچھتے تو سب لوگ آپ کی تعریف ہی کرتے ۔اللہ پاک نے انسانی صورت میں ایک فرشتہ بھیجا۔ حضرت داؤد علیہ السّلام نے اس سے بھی حسبِ عادت یہی سوال کیا تو فرشتے نے کہا: ’’ داؤد ہیں تو بہت ہی اچھے آدمی، کاش! ان میں ایک خصلت نہ ہوتی ۔ اس پر آپ علیہ السّلام متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا: ’’اے خدا کے بندے !وہ کون سی خصلت ہے؟ اس نے کہا: وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ بیتُ المال سے لیتے ہیں ۔یہ سن کر آپ علیہ السّلام کے خیال میں آیا کہ اگر آپ علیہ السّلام بیتُ المال سے وظیفہ نہ لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اس لئے آپ علیہ السّلام نے بارگاہ ِالٰہی میں دعا کی کہ اُن کے لئے کوئی ایسا سبب بنادے جس سے آپ علیہ السّلام اپنے اہل و عیال کا گزارہ کرسکیں اور بیت المال (یعنی شاہی خزانے) سے آپ علیہ السّلام کو بے نیازی ہو جائے۔ آپ علیہ السّلام کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کے لئے لوہے کو نرم کر دیا اور آپ علیہ السّلام کو زِرہ سازی کی صَنعت کا علم دیا ۔سب سے پہلے زرہ بنانے والے آپ علیہ السّلام ہی ہیں ۔ آپ علیہ السّلام روزانہ ایک زرہ بناتے تھے اور و ہ چار ہزار درہم میں بکتی تھی اس میں سے اپنے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ فرماتے اور فقراء و مَساکین پر بھی صدقہ کرتے۔ (خازن،3/517، سبا، تحت الآیۃ: 10، ملخصاً)

حضرت داؤد علیہ السّلام کی قوت فہمی: ﴿وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ-اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ(۲۱) اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْۚ-خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَ لَا تُشْطِطْ وَ اهْدِنَاۤ اِلٰى سَوَآءِ الصِّرَاطِ(۲۲)اِنَّ هٰذَاۤ اَخِیْ- لَهٗ تِسْعٌ وَّ تِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِیَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ- فَقَالَ اَكْفِلْنِیْهَا وَ عَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ(۲۳)﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور کیا تمہیں اس دعوے والوں کی بھی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر داؤد کی مسجد میں آئے۔ جب وہ داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے گھبرا گیا انہوں نے عرض کی ڈرئیے نہیں ہم دو فریق ہیں کہ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو ہم میں سچا فیصلہ فرما دیجئے اور خلافِ حق نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتائیے۔ بے شک یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دُنبی اب یہ کہتا ہے وہ بھی مجھے حوالے کردے اور بات میں مجھ پر زور ڈالتا ہے۔ (پ23،صٓ:21تا23)

حضرت داؤد علیہ السّلام عمر مبارک: حضرت آدم علیہ السّلام کی مقررہ عمر 1000 برس تھی آپ نے اپنی 40 برس عمر حضرت داؤد علیہ السّلام کو دے دی۔جب حضرت آدم علیہ السّلام کی عمر 960 برس مکمل ہو گئی تو ملک الموت تشریف لے آئے۔ حضرت آدم علیہ السّلام نے فرمایا میری عمر تو 1000 برس ہے۔ جس عمر حضرت آدم علیہ السّلام نے حضرت داؤد علیہ السّلام کو دی تھی وہ بھول گئے۔ چنانچہ الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی عمر بھی 1000 برس کر دی اور حضرت داؤد علیہ السّلام کو بھی 100 برس کی عمر عطا فرمائی ۔(جامع الترمذی ،حدیث:3076)