سید صدام مدنی(مدرس جامعۃ المدینہ فیضان نور مصطفی آگرہ تاج
کراچی، پاکستان)
قراٰن سر چشمۂ ہدایت ہے۔ اللہ نے قراٰن میں جا بجا اپنے خاص
بندوں کے واقعات اور شان و صفات کو بیان کیا ہے۔ تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں
اور ان کی شان و صفات کو سن کر اللہ کے فضل اور نعمت کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اُن خاص
بندوں میں سے حضرت داؤد علیہ السّلام کا ذکر بھی قراٰنِ مجید میں موجود ہے۔ اور اللہ
نے آپ کی مختلف صفات کو قراٰنِ مجید کی آیات میں بیان فرمایا۔ آئیے ہم پانچ صفات
کے بارے میں پڑھتے ہیں۔
آپ اللہ کے رسول ہیں: اللہ پاک نے بے شمار انبیا کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا اور انہیں انبیا
میں سے بعض وہ ہیں جن کو اللہ پاک نے نئی شریعت اور آسمانی کتاب دے کر رسول بنایا۔
ان رسولوں میں سے ایک حضرت داؤد علیہ السّلام بھی ہیں۔ آپ علیہ السّلام پر زبور
کتاب نازل ہوئی۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ
زَبُوْرًاۚ(۱۶۳) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم
نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔(پ 6 ، النسآء : 163)
آپ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بہادر تھے: اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو ۔(پ2،البقرۃ:251) جب بنی اسرائیل جالوت کی قوم سے
جنگ کرنے پہنچی تو جالوت نے اپنا مد مقابل طلب کیا لیکن جالوت کی طاقت دیکھ کر کسی
کو سامنے آنے کی ہمت نہ ہوئی اور اس وقت بنی اسرائیل کے لشکر میں داؤد علیہ
السّلام کے والد ایشا اپنے تمام بیٹوں کے ساتھ موجود تھے۔ جن میں داؤد علیہ
السّلام سب سے چھوٹے، کمزور اور بیمار تھے اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔ آپ علیہ
السّلام جالوت سے مقابلے کے لئے تیار ہوگئے اور جالوت کو رسی میں پتھر باندھ کر
پھینکا جو اس کے سر کو پھاڑتا ہوا پیچھے سے نکلا اور جالوت وہیں مرگیا۔ (تفسیر صراط
الجنان، سورہ بقرہ، زیرِ آیت 251، ملخصاً)
اپنے سے چھوٹوں کی درست بات کو ترجیح دیا کرتے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ
اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِۚ ﴾ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور داؤد اور سلیمان کو یاد کرو جب وہ دونوں کھیتی کے بارے میں فیصلہ
کررہے تھے جب رات کو اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں چھوٹ گئیں۔(پ17،الانبیآء:78) رات
کے وقت کچھ لوگوں کی بکریاں کسی اور کے کھیت میں چلی گئیں اور بکریوں کو چرانے
والا کوئی نہ تھا اور وہ بکریاں کھیتی کھا گئیں۔ جب یہ معاملہ حضرت داؤد علیہ
السّلام کے پاس آیا تو آپ نے حکم دیا کہ کھیت والے کو بکریاں دے دی جائیں کیونکہ
بکریوں کی قیمت نقصان کے برابر تھی۔ اس وقت حضرت سلیمان علیہ السّلام کی عمر گیارہ
سال تھی جب ان کو اس فیصلہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ فریقین کے لئے ایک
آسانی والی صورت بھی ہوسکتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ بکریوں والا کھیتی کاشت کرے جب تک
وہ اُسی حالت پر نہ آجائیں اور اس وقت تک کھیتی والا ان بکریوں سے نفع اٹھا سکتا
ہے۔ یہ تجویز حضرت داؤد علیہ السّلام نے پسند فرمائی۔(تفسیر صراط الجنان، سوره
انبیاء، زیرِ آیت 78، ملخصاً)
اپنے ہاتھوں سے کام کرکے تجارت کرنا: انبیائے کرام علیہمُ
السّلام مختلف پیشوں کو اختیار فرمایا کرتے اور ہاتھ کی کمائی سے تَناوُل
فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت ادریس علیہ السّلام سلائی کا کام کیا کرتے تھے، حضرت
نوح علیہ السّلام بڑھئی کا، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کپڑے کا، حضرت آدم علیہ
السّلام کاشتکاری کا، حضرت موسیٰ اور حضرت شعیب علیہما السّلام بکریاں چرانے کا، حضرت صالح علیہ السّلام چادر بنانے
کا کام کیا کرتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السّلام خود اپنے ہاتھوں سے زرہ (لوہے کا
جنگی لباس) بنا کر بیچا کرتے تھے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ
بَاْسِكُمْۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ(۸۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے ایک
خاص لباس کی صنعت سکھا دی تاکہ تمہیں تمہاری جنگ کی آنچ سے بچائے تو کیا تم شکر
ادا کروگے؟ (پ17،الانبیآء:80)
پرندے اور پہاڑ آپ کے ساتھ تسبیح بیان کرتے: اللہ پاک نے
پہاڑوں اور پرندوں کو آپ کا تابع بنا دیا کہ پتھر اور پرندے آپ کے ساتھ آپ کی
مُوافقت میں تسبیح کرتے تھے۔ ارشاد ہوا: ﴿وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ
الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَؕ ﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور داؤد کے ساتھ پہاڑ مسخر فرما دئیے کہ تسبیح کرتے اور پرندے۔ (پ :
17 ، الانبیآء: 79 )
اللہ پاک ہمیں بھی
اچھی صفات والا نیک اور پرہیزگار بندہ بنائے۔ اور انبیائے کرام علیہم السّلام کے
صدقے ہم سب پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائے۔ اٰمین