عبد اللہ ہاشم عطاری مدنی(فاضل جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ
کراچی،پاکستان)
اسمائے حُسنی سے کیا مراد
ہے؟
اسمائے حسنی سے مراد اللہ پاک کے وہ نام ہیں جن سے اللہ پاک کو پکارنے کا حکم دیا
گیا ہے، اللہ پاک کے یہ ذاتی و صفاتی نام قرآنِ کریم کی مختلف سورتوں میں موجود
ہیں ۔چنانچہ پارہ 9 سورۃُ الاعراف کی آیت نمبر 180میں ہے:وَ لِلّٰهِ
الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-
ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے
پکارو۔
اسمائے حسنی کی فضیلت :ہمارے پیارے آقا صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: اللہ پاک کے ننانوے (99) اسمائے حسنیٰ ہیں جس نے
یہ شمار کیے (یعنی یاد کر لئے) وہ جنت میں داخل ہو گا۔
(بخاری، کتاب التوحید، باب
إن لله مئۃ اسم الا واحد1، 4 / 537، حدیث:7392)
ایک اور روایت میں ہے کہ
" اللہ پاک کے ننا نوے نام ہیں جس نے
ان کے ذریعے دعا مانگی تو اللہ اس کی دعا کو قبول فرمائے گا۔(جامع صغیر، حرف الہمزہ، ص 143،
الحدیث 2370)
اسمائے حسنیٰ کا درد اور دعا کرنے کا طریقہ:بزرگ فرماتے ہیں : جو شخص
اس طرح دعا مانگے کہ پہلے کہے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ
اَسْاَلُکَ یَارَحْمٰنُ، یَارَحِیْمُ ‘‘ پھر ’’رحیم‘‘ کے بعد سے تمام اسمائے
مبارکہ حرفِ ندا کے ساتھ پڑھے (یعنی یِامَلِکُ،
یَاقُدُّوْسُ، یَاسَلَام…یونہی آخر تک) جب اسماء مکمل ہو جائیں تو یوں کہے ’’اَنْ
تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَاَنْ تَرْزُقَنِیْ وَجَمِیْعَ مَنْ
یَّتَعَلَّقُ بِیْ بِتَمَامِ نِعْمَتِکَ وَدَوَامِ عَافِیَتِکَ یَا اَرْحَمَ
الرَّاحِمِیْن‘‘پھر دعا مانگے، ان
شاءَاللہ مراد پوری ہوگی اور کبھی دعا رد نہ ہو گی۔ (روح البیان، الاعراف، تحت
الآیۃ: 180، 3 / 282)
اسمائے حسنیٰ کو یاد کرنے آسان طریقہ :حضرت سیدنا شیخ ابو طالب
مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب قُوتُ الْقُلُوب میں اسمائے حسنیٰ یاد کرنے کا
بڑا ہی آسان طریقہ نقل فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ اسمائے حسنیٰ پورے قرآنِ
کریم میں مختلف جگہوں پر مذکور ہیں ۔ پس جو یقین رکھتے ہوئے اللہ پاک سے ان کے
وسیلہ سے دعا کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے پورا قرآنِ کریم ختم کیا۔ اگر انہیں
زبانی یاد کرنا مشکل ہو تو حروفِ تہجی کے اعتبار سے انہیں شمار کر لیا کریں ۔ یعنی
ہر حرف سے شروع ہونے والے اَسمائے حسنیٰ یاد کر لیں مثلاً پہلے الف سے شروع کریں
اور دیکھیں کہ اس حرف سے کون سے اَسمائے حسنیٰ آتے ہیں مثلاً الف سے اَللّٰهُ، اَلْاَوَّلُ، اَلْاٰخِرُ وغیرہ۔ ب سے اَلْبَارِیُٔ، اَلْبَاطنُ اور ت سے اَلتَّوَّابُ۔ البتہ! بعض حروف سے
اسمائے حسنیٰ کا پایا جانا مشکل ہو گا لہٰذا جن حروف سے ممکن ہو ان سے اسمائے
ظاہرہ نکال کر انہیں شمار کر لیں اور جب وہ 99 ہو جائیں تو یہی کافی ہے کیونکہ ایک
حرف سے کم و بیش دس اسمائے حسنیٰ پائے جائیں تو بھی حرج نہیں ۔ اگر کسی حرف سے
کوئی اسم نہ ملے تو کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ تعداد پوری ہو گئی ہو تو حدیثِ پاک میں
مروی فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ (قوت القلوب، الفصل الخامس عشر، 1/ 81)
قرآن کریم سے 10 اسماء الحسنیٰ:
اسمائے حسنیٰ ہیں تو بہت زیادہ مگر مشہور 99 ہیں ۔ حضرت
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے
الٰہیہ ننانوے میں منحصر نہیں ہیں۔(نووی
علی المسلم ، کتاب الذکر و الدعا و التوبۃ۔۔۔۔ الخ ، باب فی اسماء اللہ و فضل من
احصاہا 9/5 الجزء السامع عشر)
ان مشہور اسماء الحسنیٰ
میں سے 10 اسماء کا ذکر یہاں کیا جائے گا:
(1) الْعَلِیْمُ:بہت زیادہ علم رکھنے والا،
ہر اول اور آخر کو جانتا ہے جوہر چیز کو ہر وقت جاننے والا ہے۔
(2) الْعَدْلُ: انصاف کرنے والا، جو اپنے بندوں کے درمیان تمام
معاملات میں انصاف کرنے والا ہے۔
(3) التَّوَّابُ :توبہ قبول کرنے والا، جو
بڑے سے بڑا گناہ کرنے وا لے کی بھی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
(4) الرَّءُ وْفُ: بڑا ہی شفیق و مہربان، جو اپنے بندوں سے نہایت شفقت
اور انتہائی نرمی کا برتاؤ کرنے والا ہے۔
(5) مَالِكُ الْمُلْكِ : حقیقی شہنشاہ، جسے چاہے
بادشاہت عطا کرے اور جس سے چاہے چھین لے۔دنیا و آخرت اور پوری کائنات کا حقیقی
بادشاہ ہے ، پوری کائنات پر جس کی حکومتِ لازوال ہے۔
(6) الْحَیُّ:ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے
والا، جسے کبھی فنا اور زوال نہیں جب کہ اس کے علاوہ ہر چیز فنا ہو جائے گی۔
(7) الْقَیُّوْمُ:کائنات کو قائم رکھنے اور
سنبھالنے والا، جو پوری کائنات کا محافظ اور نگران ہے۔
(8) الْحَقُّ:وہ اپنی ذات و صفات میں
سچا ہے،وہی عبادت کا حقدار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
(9) الْحَکِیْمُ:حکمت و دانائی والا،جو ہر
چیز کو بہتر انداز میں سمجھنے والا ہے،اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔
(10) الْکَریْمُ:عطا کرنے والا، بڑا سخی، جو قدرت کے باوجود معاف
کرنے اور امید سے بڑھ کر عطا کرنے والا ہے۔