قوم ثمودکا تعارف:ثمود عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے جس کے
لوگ حجاز و شام کے درمیان سر زمین حجر میں آباد تھے اللہ پاک نے اس قوم کو انتہائی
زرخیز زمین عطا کی تھی جس کی وجہ سے ان کی فصلیں خوب ہوتیں اور باغات سرسبز و
شاداب اور میووں سے بھرے ہوتے تھے فن تعمیر میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا.
قوم ثمود کی عملی حالت: آل ثمود اللہ پاک کی وحدانیت پر
ایمان رکھتے اور اسی کی عبادت کرتے تھے پھر کچھ عرصہ کے بعد کچھ لوگوں نے پتھروں
کے عجیب و غریب شکلوں کے بت بنائے پھر مختلف نام رکھ کر انہیں خدا پاک کا شریک
ٹھہرایا اور عبادت الہی چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا میں مشغول ہو گئے رفتہ رفتہ چند
افراد کے علاوہ پوری قوم نے اس دلدل میں چھلانگ لگا دی.
بعثت حضرت صالح علیہ السلام:اللہ رب العزت نے انہیں اس سے
نجات دلانے اور راہ ہدایت پر گامزن کرنے کے لئے ایک عظیم ہستی حضرت صالح علیہ
السلام کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا جیسا کہ
قرآن مجید میں ہے:
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا
ترجمۂ کنز الایمان :اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم
صالح کو بھیجا۔ (پ8، الاعراف:73)
حضرت صالح علیہ السلام کی نافرمانی: آپ علیہ السلام نے قوم
کو وحدانیت باری پاک پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو قوم
نے آپ کو جھٹلایا اور نافرمانی کی آپ علیہ السلام نے قوم ثمود کو انعامات الہیہ
یاد دلا کر بھی سمجھایا تو حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت و نصیحت سن کر لوگ دو
گروہوں میں تقسیم ہو گئے ایک گروہ حق و صداقت قبول کرنے والوں کا دوسرا گروہ اپنی
جہالت و ضلالت پر ڈٹے رہنے والوں کا.
عذاب الہی کا سن کر بے باکی اور نافرمانی کا مظاہرہ: قوم
ثمود کو حضرت صالح علیہ السلام نے تکذیب و انکار کرنے پر عذاب الہی سے ڈرایا اور
ایمان و اطاعت کی دعوت دی عذابِ الہی کے بات سن کر قوم نے بے باکی اور نافرمانی کا
مظاہرہ کیا.
اونٹنی کا مطالبہ اور نافرمانی: آپ کی تبلیغ و نصیحت سے
تنگ آکر لوگوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ آپ سے ایک ایسا مطالبہ کیا جائے جسے آپ پورا
نہ کر سکیں پھر انہوں نے آپ سے ایک ایسی اونٹنی کا مطالبہ کیا جو طاقتور، خوبصورت،
ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک، دس ماہ کی حاملہ پہاڑ سے نکلے اور نکلتے ہی بچہ
جنے پھر آپ نے ان سے عہد لیا کہ اگر آپ ان کا مطالبہ پورا کر دیں گے تو وہ ایمان
لے آئیں گے پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھ کر بارگاہ الہی میں دعا کی اور چٹان کی طرف
اشارہ فرمایا تو اسی وقت چٹان پھٹی اور اس میں سے ایک انتہائی خوبصورت، تندرست،
اونچے قد والی اونٹنی نکل آئی جو حاملہ تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اس
عظیم الشان معجزہ کو دیکھ کر جندع نامی شخص اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا
اور باقی لوگوں نے نافرمانی کی.
ایک ہدایت اور نافرمانی: اونٹنی کے متعلق ایک ہدایت یہ تھی
کہ اسے برائی کی نیت سے نہ ہاتھ لگانا نہ مارنا نہ ہنکانہ اور نہ قتل کرنا قوم
ثمود حضرت صالح علیہ السلام کے دیے ہوئے احکام پر ایک عرصہ تک عمل پیرا رہیں پھر
انہیں اپنی چراگاہوں میں اور مویشیوں کے لئے پانی کی تنگی کی وجہ سے افسوس ہوا تو
وہ لوگ اونٹنی کو قتل کرنے پر متفق ہوگئے اور اس کام کے لیے اپنے ساتھی قدار بن
سالف کو منتخب کیا جس نے اونٹنی کو پکڑ کر تیز تلوار سے اس کی کونچیں کاٹ کر قتل
کر ڈالا اونٹنی کو قتل کرنے کے بعد ان لوگوں کی سرکشی اور بے باکی میں اور اضافہ
ہوا.
عذاب الہی کا مطالبہ اور انجام: اس جرم کا ارتکاب کرنے کے
بعد حضرت صالح علیہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے اے صالح اگر تم رسول ہو تو ہم پر
وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتے ہو ہو تو آپ نے نزول عذاب کی خبر دی پھر
ان لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو شہید کرنے کی سازش کی تو آپ کو شہید کرنے کی
سازش کرنے والے تو عام عذاب اترنے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے اور باقی
نافرمان عام عذاب اترنے پر اپنے انجام کو پہنچے.
حدیث مبارکہ میں قوم ثمود کا تذکرہ: حضرت جابر بن عبداللہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مقام حجر سے گزرے
تو ارشاد فرمایا: اے لوگو! معجزات کا مطالبہ نہ کرو، کیوں کہ حضرت صالح علیہ
السلام کی قوم نے معجزے کا مطالبہ کیا (تو اللہ پاک نے ان کے لئے اونٹنی بھیجی) جو
اس گھاٹی سے باہر آتی اور اسی کے اندر چلی جاتی تھی وہ اونٹنی ایک دن لوگوں کے حصے
کا پانی پی جاتی اور لوگ اس دن اونٹنی کا دودھ پی لیتے تھے پھر انہوں نے اونٹنی کی
کونچیں کاٹ دیں تو انہیں ایک ہولناک چیخ نے پکڑ لیا اور اللہ پاک نے آسمان کے نیچے
موجود ان کے ہر فرد کو ہلاک کر دیا سوائے ایک شخص کے جو کہ حرم پاک میں موجود تھا۔
عرض کی گئی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وہ کون تھا؟ارشاد فرمایا: ابو
رغال، جب وہ حرم پاک سے نکلا تو اسے بھی وہی عذاب پہنچ گیا جو اس کی قوم پر آیا
تھا۔(مسند امام احمد،مسند جابر بن عبداللہ،حدیث:14162)از سیرت
الانبیاء