حضرت صالح،  سام بن نوح کی اولاد میں سے تھے اور قومِ ثمود کے پیغمبر تھے، قومِ ثمود کا دوسرا نام عادِثانی بھی ہے، حضرت صالح عرب انبیاء میں تیسرے نبی تھے، حضرت صالح کی عمر دو سواسّی سال تھی اور نجف کے وادی السلام قبرستان میں دفن ہوئے، قرآن مجید میں حضرت صالح کا ذکر ہے 9 دفعہ آیا ہے۔

حضرت صالح تقریباً سولہ سال کی عمر میں نبوت کے لئے مبعوث ہوئے، منقول ہے کہ 120 سال کی عمر تک اپنی قوم کی طرف دعوت دی، لیکن انہوں نے حضرت صالح کی دعوت قبول نہ کی

وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا (پ8، الاعراف، 73)

حضرت صالح علیہ السلام ان سے فرماتے تھے: میں تمہارے خداؤں سے ایک درخواست کرتا ہوں، تم لوگ میرے اللہ سے درخواست کرو ، حضرت صالح نے جب بتوں کے خداؤں سے درخواست کی تو کوئی جواب نہ آیا اور جب بُت پرستوں نے جناب حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اللہ سے درخواست کریں کہ پہاڑ کے اندر سے ایک منٹ میں باہر آئے اور ایسا ہی ہوا علیہ السلام نے اپنی قوم ثمود سے اس اونٹنی کو نہ مارنے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے بڑھ گئے اور اونٹنی کومار ڈالا، اس کا ذکر قرآن پاک میں کچھ یوں ہے:

فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ۶۵(پ12،ھود، 65)

قومِ ثمود کی طرف سے ناقہ صالح کو مارنے ڈالنے کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں خبردار کیا کہ تین دن بعد وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے اور یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے، بعض اقوال کی بناء پر پہلے دن ان کا چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، دوسرے دن سُرخ، تیسرے دن کالا ہو گیا، جب ان کو ہلاک کرنے کا حکم آ گیا تو اللہ پاک نے اپنی رحمت سے حضرت صالح اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے، بچالیا اور وہ چار ہزار لوگ تھے اور یہ بھی کہا گیا کہ جو لوگ عذابِ خداوندی سے محفوظ رہ گئے تھے، وہ مکہ یا فلسطین کے شہر ہجرت کر گئے، اس قوم سے ہمیں یہ سبق ملا کہ جب بندہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء کے دامن کو چھوڑ کر نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے، تو اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے، ہمیں ہر وقت کسی ایسے ولی اللہ سے وابستہ رہنا چاہئے، جو ہمیں ہر وقت اللہ کی نافرمانی سے بچا سکے، آج کے دور میں وہ ہستی امیر اہلسنت کی ذات ہے، جن کی نظرِ عنایت سے لاکھوں نمازی، مسلمان ہوئے، ہمیں بھی چاہئے کہ ان کے فرمان پر عمل کرکے اپنی آخرت سنوار یں۔

جو غافل تھے ہوشیار ہوگئے، جو سوئے تھے بیدار ہوگئے

جس قوم کی فطرت مردہ ہو، اس قوم کو زندہ کون کرے